آغا عبدالکریم شورش کاشمیری کا نام زبان یا نوکِ قلم پر آتے ہی ایک ایسی ہمہ جہت اور ہمہ صفت شخصیت کا خاکہ قلب و ذہن میں ابھرتا ہے جس کی سیاست اور صحافت نے کم و بیش نصف صدی تک متحدہ ہندوستان اور پھر پاکستان میں اپنی خداداد صلاحیتوں کا لوہا ڈنکے کی چوٹ پر منوایا۔ آغا شورش کا شمیری کے پیکر میں مولانا ظفر علی خان ، مولانا ابو الکلام آزاد ، مولانا محمد علی جوہر اور امیر شریعت مولانا سید عطا اللہ شاہ بخاری کی خوبیاں اور محاسن اکٹھے ہوگئے۔ وہ مجلس احراراسلام کے متحدہ ہندوستان میں سیکرٹری جنرل رہے۔ انہوں نے مجلس ِ احرارکے سرکاری ترجمان روز نامہ ” آزاد“ کی ادارت کے فرائض بھی انجام دیئے۔ انہوںنے مجلسِ احرار کے خیبر سے راس کماری تک عوامی جلسوں سے خطاب کیا۔ ا ردو زبان ان کے اپنے قول کے مطابق ان کی باندی تھی۔ ان کا حافظہ بلا کا تھا۔ مولانا ظفر علی خان کی تحریریں اور تقریریں ، مولانا ابو الکلام آزاد کی علم و دانش کی خوشبو میں بسی ہوئی نگار شات اور مجلسِ احرار کے مفکر چوہدری افضل حق کی بصیرت و فراست اور شمع ختم نبوت سے امیر شریعت سید عطا اللہ شاہ بخاری کی گہری وابستگی، ان سارے اجزا نے مل کر آغا شورش کاشمیری کا پیکر تخلیق کیا۔ وہ پندرہ سولہ برس کے نوجوان تھے جب انہوں نے مولانا ظفر علی خان کی قیادت میں سیاسی جدوجہد کا آغاز کیا ، پھر وہ احرار کی صفوں میں شامل ہوگئے جو اس وقت مسلمانوں کو آزادی کے لئے بیدار کرنے کا فریضہ نہایت جرآت و بہادری سے ادا کررہے تھے۔احرار میں شمولیت کا مطلب یہ تھا کہ آپ نے سکون و عافیت کی زندگی کو خیر باد کہنے کا فیصلہ کرلیاہے اور اب ہتھکڑیاں آپ کا زیور اور جیل آپ کا مسکن ہوگی۔ آغا شورش کاشمیری نے خارزارِ سیاست میں قدم رکھا تو جیل کی مہیب دیواروں نے انہیں اپنی بانہوں میں لے لیا۔ پنجاب کی کئی جیلیں اس امر کی گواہ ہیں کہ آغا شورش کاشمیری نے قیدو بند کی صعوبتیں بڑی بہادری سے جھیلیں۔
میرے دل میں آغاشورش کاشمیری کی قدرو منزلت کا جذبہ اس وقت قوی تر ہونا شروع ہوا جب 1953 کی تحریک ختمِ نبوت میں ٹوبہ ٹیک سنگھ ریلوے سٹیشن پر ایک اجتماع میں قادیانیوں اور تختِ ربوہ کے خلاف ایک نظم پڑھنے کی پاداش میں مولانا محمد عمر لدھیانوی اور مجلس تحفظ ختم نبوت کے ایک رہنما عبدالحمید پہلوان اور سول نافرمانی کی تحریک میں حصہ لینے کے لئے ٹوبہ ٹیک سنگھ سے لاہور روانہ ہونے والے چار رضا کاروں کے ساتھ مجھے بھی گرفتار کرلیا گیا۔ان سب لوگوں کو ہتھکڑیاں لگادی گئیں مگر میرے بازو اتنے کمزور تھے کہ وہ ہتھکڑیوں کی گرفت میں نہیں آسکتے تھے۔ اس بنا پر میرے ہاتھوں کو ایک رسے سے باندھ دیا گیا اور مجھے اور میرے ساتھیوں کو پولیس کی ایک گاڑی میں بٹھا کر ٹوبہ ٹیک سنگھ تھانہ میں لے جایا گیا۔ میرا اپنا خیال تو یہ تھا کہ تھانے لے جا کر مجھے چھوڑ دیا جائے گا مگر وہاں پہلے تلاشی ہوئی ، میری جیب سے تمام نظمیں نکال لی گئیں اور پھر ہم سب کو حوالات میں بند کردیا گیا۔ یہیں میرے قابلِ احترام رہنماﺅں مولانا محمد عمرلدھیانوی اور جناب عبدالحمید پہلوان نے مجھے ”شورش“ کا لقب دے دیا اور جب میں رہا ہوا تو میرا استقبال کرنے والوں نے مجھے شورش زندہ باد کے نعروں سے نوازا۔ نام تو میرا میرے والدین نے تاج الدین رکھا تھا لیکن گرفتاری اور رہائی کے ان مراحل نے مجھے پہلے ” تاج شورش“ اور پھر ”شورش پاکستانی“ بنادیا۔ میں جب بھی لائل پور جاتا ، جھنگ بازار میں اپنے چچا قاضی علاﺅ الدین سرہندی کی دکان پر ضرور حاضری دیتا جو مجھ سے بہت پیار کرتے تھے اور میں بھی ان کا بہت احترام کرتا تھا۔ ان کے پاس جانے میں ایک کشش آغا شورش کاشمیری کا ہفت روزہ ”چٹان“ بھی تھا جو ان کے پاس نہایت باقاعدگی سے آتا تھا اوروہ بے صبری سے اس کا انتظار کرتے تھے۔ چٹان میں آغا شورش کاشمیری کے اپنے قلم سے لکھی ہوئی تحریریں ، اسرار بصری کے قلمی نام سے ”قلم قتلے“ کے زیر عنوان ان کی نشترزنی اور ”چٹان“ کے سرورق کے اندرونی صفحہ پر آغا صاحب کی سیاسی غزل یا نظم بہت ہی خاصے کی چیزیں ہوتی تھیں۔ ان کے ادارئہ تحریر میں مولانا محمد وارث کا مل ، ابو صالح اصلاحی ، علی سفیان آفاقی ، مسکین حجازی، ریاض شاہد ، تجمل حسین ، حمید اصغر نجید اور بہت سے دوسرے قلم کار شامل تھے۔ اس وقت لاہور سے ہفت روزہ ”اقدام“ اور ”قندیل“ بعد ازاں ”شہاب“ اور ” نصرت“شائع ہوتے تھے۔ ”اقدام “ کے ساتھ آغا شورش کا شمیری کے” چٹان “ کی ہمیشہ معرکہ آرائی رہی۔ ظہور الحسن ڈار جو ” زمیندار“ کے ادارہ تحریر سے وابستہ رہے تھے اور وہاں ”اندھیرے اور ا جالے“ کے عنوان سے شائع ہونے والا ان کا کالم بہت معروف تھا ، ان کے جریدہ”ایشیا“ اور آغا صاحب کے درمیان بھی بہت ٹکراﺅ رہا اور پھر سب سے بڑا معرکہ آغا صاحب کے ”چٹان“ اور جناب کوثر نیازی کے ہفت روزہ ” شہاب“ میں ہوا جہاں کوثر صاحب کے ساتھ نذیر ناجی اور بائیں بازو کے کئی اور صحافی”چٹان“ پر حملے کے لئے میدان میں آچکے تھے۔ جب میں 1958ءمیں ٹوبہ ٹیک سنگھ سے لائل پور گیا اور ”آفاق“ میں کام کرنے لگا تو چھ مہینے ، سال کے بعد ہی مصطفی صادق اور میں اپنا اخبار نکالنے کے لئے پر تولنے لگے۔ ہماری ساری کوشش کے باوجود ہمیں روزانہ اخبار نکالنے کا ڈیکلریشن نہ مل سکا۔ اس دوران ہم نے ”پاک نیوز سروس“ کے نام سے ایک خبررساں ایجنسی اور ”پاک ایڈورٹائزر“ کے نام سے ایک اشتہاری ادارہ قائم کیا۔(جاری)
