سیٹ بیلٹ باندھ کر رکھیں!

مرشد کی ساڑھے تین سالہ کہانی کوچند سطروں میں بیان کرنا ہو تو یہ قصہ پڑھ لیں ، پھر آگے بڑھتے ہیں کہ ممکنہ طور پر آنے والے دنوں میں مملکت خدادادِ پاکستان میں کیا ہونے جارہا ہے؟ مرشد نے 10 لاکھ کے مجمع میںجو سرپرائز دینا تھا وہ محض اس لئے اپنی جیب میں ڈال کر واپس چلے گئے کہ مجمع میں گنتی پوری نہیں تھی۔ مرشد کے بقول جس کسی نے لہرائے گئے دھمکی والے کاغذ کا دیدار کرنا ہے وہ کالی جمعرات کو مرشد کے دربار پر حاضر ہو۔ خیر یہ قصہ پہلے پڑھ لیں جو کچھ یوں ہے، ایک سلطنت شدید بحران کا شکار تھی۔ ہر کوئی امور مملکت میں بادشاہ کی کوتاہیوں پر انگلیاں اٹھا رہا تھا۔ بادشاہ کی حالت یہ تھی کہ ایک کے بعد ایک شخص کو بطور سپاہ سالار آزماتا لیکن کوئی بھی اس عہدے کا اہل نہ نکلتا۔
ا دھر ہرکاروں نے بادشاہ کو یہ خبر دی کہ دشمن کی فوجیں قدم بہ قدم قلعہ فتح کرنے کے لئے آگے بڑھ رہی ہیں۔ بادشاہ کو فکر لاحق ہوئی کہ دشمن کا مقابلہ کیسے کیا جائے؟ خیر بادشاہ کو ایک ترکیب سوجھی کہ یہی بہتر ہے کہ شہر میں منادی کرا دی جائے کہ سلطنت کو ایک ایسے بہادر ، نڈر اور بے باک شخص کی ضرورت ہے جو ذہین بھی ہو اور دشمن کی چالوں کو ناکام بنانے کی مہارت بھی رکھتا ہو۔ چوراہوں پر منادی کرائی گئی۔ اس اعلان کے ساتھ یہ شرط بھی رکھی گئی کہ کل صبح سویرے سورج چڑھنے سے پہلے جو پہلا شخص قلعے کی فصیل کے سامنے پہنچے گا وہ سلطنت کا آئندہ سپہ سالار قرار پائے گا۔ جب سو رج طلوع ہونے کا وقت آیا تو رعایا سوئی پڑی رہی۔ فصیل کا دروازہ کھولا گیا ایک راستہ بھٹکا ہوا کمہار اپنے گدھے پر بیٹھا قلعے میں داخل ہوا۔ ہر طرف خوشی کے شادیانے بجائے گئے کہ ایک درویش صفت نڈر مل گیا جو کسی سے ڈرتا نہیں، گھبراتا نہیں، نہ اس کے ہاتھ میں کوئی نیزہ یا تلوار ہے اور اتنے بڑے دشمن سے مقابلے کے لئے جان ہتھیلی پر رکھ کر اپنی خدمات رضاکارانہ طور پر پیش کررہا ہے۔ بادشاہ سلامت نے اس کمہار کا شاندار استقبال کیا، گلے لگایا، تخت پر اپنے قریب بٹھایا پھر پوچھا کہ تمہیں ایک طاقت ور دشمن کا مقابلہ کرنے کے لئے کیا کیا سہولتیں درکارہوں گی؟ تمہاری حکمت عملی کیا ہے؟ کمہار بولا حضور! آپ بے فکر ہو جائیں ہم دشمن کا اپنی حکمت عملی سے ایسا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے کہ دنیا حیران ہو جائے گی۔ فی الحال آپ حلوے کی دیگیں پکوائیں اوررعایا میں بانٹ دیں، بادشاہ خوش ہوا ، حلوے کی دیگیں پکائی گئیں اور رعایا میں تقسیم کر دی گئیں۔ ہرکاروں نے کمہار کو اطلاع دی کہ دشمن تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے، آپ حکم کریں کہ کس حکمت عملی سے دشمن کا مقابلہ کیا جائے تو حکم ملا مزید دیگیں پکائی جائیں ہرکاروں نے پھر اطلاع دی کہ دشمن کی پیش قدمی مزید تیز ہوگئی ہے، کمہار نے کہادیگوں کی تعداد دگنی کر دی جائے۔ کچھ دیر بعد پھر ہرکارے دوڑتے ہوئے آئے اور اطلاع دی کہ حضور اب تو دشمن سر پر آن پہنچا ہے ،کمہار نے پھر کہا حلوے کی دیگیں پہلے سے چار گنا زیادہ کر دی جائیں۔ ہرکاروں نے اطلاع دی کہ حضور دشمن آج شام تک قلعے کا محاصرہ کرلے گا اب کیا کریں؟ جواب ملا کیا حلوے کی دیگیں تیار ہیں۔ اگلی صبح دشمن قلعے پر حملہ آور ہوا، کمہار کو بتایا گیا کہ دشمن نے بھرپور حملہ کر دیا ہے، کمہار نے کہا قلعے کا دروازہ کھول دو میرا گدھا لاﺅ، ہم دشمن کا بھرپور مقابلہ کریں گے، اسے ناکوں چنے چبوا دیں گے۔ بادشاہ اس درویشانہ حکمت عملی پر خوش ہوا کہ اب وہ وقت آگیا ہے کہ دشمن کی فوج کو ہم گھیر کر ماریں گے ، کمہار کا گدھا لایا گیا، کمہار نے اس پر اپنا سامان لادا۔ ا دھر دشمن قلعے میں داخل ہوا۔ اِدھر گدھے پر بیٹھے کمہار نے حکم دیا کہ قلعے کا پچھلا دروازہ کھولا جائے ہم اکیلے ہی یلغار کریں گے۔ کمہار پچھلے دروازے سے باہر نکلا اورآواز لگائی حضور ہم تو حلوہ کھانے آئے تھے آپ جانیں اور آپ کے دشمن ہم تو چلے۔ اس قصے میں مرشد کی پناہ گاہوں، لنگر خانوں، صحت ، زرعی کارڈ اور دس لاکھ کے مجمع میں سرپرائز دینے سے مماثلت محض اتفاق ہے، تحریک عدم اعتماد تو محض ایک آئینی کارروائی ہے۔ پنجاب کے وسیم اکرم پلس کو بچاتے بچاتے مرشد نے اپنی بھی لٹیا ڈبو دی۔ جہاں تک وسیم اکرم پلس کے استعفے کا تعلق ہے وہ مرشد کی جیب میں دھمکی والے خط کی طرح محفوظ پڑا ہے۔ دیکھتے ہیں کہ یہ گورنر کے پاس پہنچتا بھی ہے یا نہیں۔ سوچنے کی بات ہے کہ اگر وفاق میں اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوگئی تو چودھری صاحب کا خواب تو دھرے کا دھرا ہی رہ جائے گا، اگر فیصلہ مرشد کے حق میں آگیا تو کیا وہ وسیم اکرم پلس کی قربانی دینے کو تیار ہو جائیں گے۔ یہ بات تو طے ہے کہ جب تک مرشد کے مستقبل کا فیصلہ نہیں ہو جاتا وسیم اکرم پلس کا استعفیٰ گورنر تک نہیں پہنچے گا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مرشد، چودھری معاہدے کی گارنٹی کس نے دی؟ کون ہے جس کے کہنے پر چھوٹے چودھری صاحبان چپ چاپ مرشد کے دربار پر حاضر ہوئے اور آنکھیں بند کرکے پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کی صرف نامزدگی قبول کرلی۔ آپ سیٹ بیلٹ باندھے رکھئے، موسم کی خرابی کے باعث نئے پاکستان سے پرانے پاکستان جانے والی یہ پرواز کسی بھی وقت ناہموار ہوسکتی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں