مجھے اگرچہ قرطاس و قلم کے میدان میں کم و بیش بیس سال سے جناب بلال زبیری کی خدمات پر کبھی قریب اور کبھی دُور سے نگاہ دوڑانے کا موقع ملتا رہا۔ مگر آج جب میں ان سے وابستہ اپنی یادیں تازہ کرنے کی کوشش کررہا ہوں، مجھے یہ اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ اپنے دوستوں کے بارے میں ان کی رحلت کے بعدکچھ لکھنا شاید سب سے زیادہ مشکل کام ہے۔ بلال صاحب کا شمار اگرچہ ان لوگوں میں ہوتا ہے جو عمر بھر دکھ اور تکالیف برداشت کرتے چلے جاتے ہیں لیکن ان کے چہرے ہنستے مسکراتے رہتے ہیں اور کوئی شخص یہ اندازہ نہیں کر سکتا کہ اس مسکراہٹ میں کس قدر دکھ اور کرب پوشیدہ ہیں۔ آج جب بلال زبیری ہمارے درمیان موجود نہیں رہے، یہ تلخ حقیقت ہمارے دل و دماغ کو بار بار جھنجھوڑتی ہے کہ انہوں نے ایک سنگین عارضہ کا کس بلند ہمتی سے مقابلہ کیا اور جب تک مرض نے شدت اختیار کرکے انہیں بستر پر، جو بسترِ مرگ ثابت ہوا، نہ ڈال دیا، وہ اپنے روزمرہ معمولات میں مصروف رہے۔
دوستوں اور رفقاءکی جدائی کے معاملے میں ایک اور تلخ تجربہ سے بھی گزرنا پڑتا ہے، وہ یہ کہ وہ ہماری آنکھوں کے سامنے اس دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں اور ہم خود انہیں لحد میں اتارتے ہیں لیکن دل ہے کہ ایسے حادثات اور المیوں کی حقیقت کو تسلیم کرنے میں متا مل رہتا ہے۔ اگرچہ آنسو بہاتی آنکھیں بلال کی رحلت کے سانحہ کی گواہی دے رہی ہیں مگر قلب و ذہن کی کیفیت یہ ہے کہ بلال کا جسم یہاں نہ ہونے کے باوجود نگاہیں انہیں یہیں کہیں ڈھونڈ رہی ہیں۔
بلال زبیری سے میری پہلی ملاقات ٹوبہ ٹیک سنگھ میں ایک محفل مشاعرہ میں ہوئی تھی۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ کے بعض ادب دوست بزرگ جن میں صوفی غلام رسول ضیائی مرحوم خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ چند ماہ کے بعد ایک محفل مشاعرہ آراستہ کرتے تھے۔ جھنگ چونکہ ٹوبہ ٹیک سنگھ سے اٹھارہ انیس میل کے فاصلہ پر ہے اور شعر و ادب کے میدان میں خوب زرخیز ہے۔ اس لئے ٹوبہ ٹیک سنگھ کے اس مشاعرے کی رونق جھنگ کے شعراءدوبالا کرتے تھے، اس محفل مشاعرہ میں، جس کا میں ذکر کررہا ہوں، سٹیج سیکرٹری کے فرائض جناب بلال زبیری ادا کررہے تھے۔ انہوں نے شعراءکا تعارف جس دل نشین پیرایہ میں کرایا وہ میرے ذہن پر نقش ہوکر رہ گیا۔ بلال زبیری کا نام میرے لئے نیا نہیں تھا۔ وہ جھنگ میں لائل پور کے روزنامہ ”غریب“ کے نمائندہ خصوصی تھے۔ ”غریب“ اس زمانہ میں اس علاقہ کا کثیرالاشاعت اور با اثر اخبار تھا اور اس کے نمائندوں میں جناب خواجہ صادق کاشمیری مرحوم (لاہور) جناب بلال زبیری مرحوم (جھنگ) اور جناب احمد اسحٰق مرحوم (کراچی) کے اسماءخاص طور پر قابل ذکر تھے اور ان کی ارسال کردہ خبریں، سرخیوں میں ان کے ناموں کے حوالے کے ساتھ شائع کی جاتی تھیں۔ جناب بلال زبیری روزنامہ ”غریب“ کی نمائندگی کے علاوہ جھنگ سے شائع ہونے والے ہفت روزہ ”صنعتی پاکستان“ کی ادارت کے فرائض بھی ادا کررہے تھے۔ یہ پرچہ مولوی نظام الدین انصاری کی ملکیت تھا۔ مولوی نظام الدین انصاری پارچہ بافوں کی انجمن ”انصار پارچہ باف کانفرنس“ کے عہدیدار بھی تھے۔ اس زمانہ میں یہ پارچہ بافوں کی ایک فعال تنظیم تھی اور اس کے صدر گوجرانولہ کے حاجی محمد ابراہیم انصاری (ایم این اے عثمان ابراہیم کے والد) اورجنرل سیکرٹری ملتان کے بابو فیروزالدین انصاری تھے۔ مولوی صاحب نے ”صنعتی پاکستان“ کو پارچہ بافوں کے ترجمان کی حیثیت دے رکھی تھی لیکن جب بلال زبیری نے اس کی ادارت سنبھالی تو اسے علمی، ادبی اور سیاسی حلقوں میں بھی ایک نمایاں مقام حاصل ہوگیا۔ ”صنعتی پاکستان“ میرے والد بزرگوار قاضی سراج الدین صاحب سرہندی کے ہاں آتا تھا۔ جو خود بھی سیاست و صحافت کا عمدہ ذوق رکھتے تھے۔ وہ اگرچہ بنیادی طور پر ایک کاروباری شخصیت تھے لیکن سرہند (ریاست پٹیالہ) میں سیاسی و سماجی کاموں میں خوب حصہ لیتے رہتے تھے اور پاکستان بننے کے بعد جب وہ ہجرت کرکے ٹوبہ ٹیک سنگھ آئے تو انہوں نے مہاجرین کے مسائل حل کرانے کے لئے انجمن مہاجرین کی داغ بیل ڈالی اور بلدیہ ٹوبہ ٹیک سنگھ کے رکن منتخب ہوگئے۔ بعد ازاں بلدیہ کے نائب صدر بھی رہے۔ انہیں ابتدا ہی سے اخبارات میں لکھنے لکھانے سے دلچسپی رہی، قیام پاکستان کے بعد اس دلچسپی نے امیر حبیب اللہ سعدی اور جناب صفدر سلیمی مرحوم کی زیر ادارت لائل پور سے شائع ہونے والے روزنامہ ”انصاف“ سے بطور نامہ نگار وابستگی کی شکل اختیار کرلی لیکن ”انصاف“ جلد ہی حق گوئی و بے باکی کے باعث سیفٹی ایکٹ کی سُولی پر چڑھ گیا۔ ”انصاف“ کی بندش کے بعد انہوں نے روزنامہ ”غریب“ لائل پور کی نمائندگی حاصل کرلی۔ میں نے ہوش سنبھالتے ہی اپنے گھر میں جو اخبارات دیکھے، ان میں ”انصاف“، ”غریب“ اور ”صنعتی پاکستان“ شامل تھے۔ میں نے ”صنعتی پاکستان“ کے بچوں کے صفحہ کے لئے مضامین لکھنے شروع کئے اور اس طرح مولوی نظام الدین انصاری اور بلال زبیری سے غائبانہ تعلقات کی ابتدا ہوئی۔ مولوی نظام الدین انصاری ایک مرتبہ میرے والد صاحب سے ملاقات کے لئے ٹوبہ ٹیک سنگھ آئے اور تقریباً گھنٹہ بھر ان سے بات چیت کرتے رہے۔ میں ان کے قریب بیٹھا ہوا تھا، روانگی کے وقت انہوں نے کہا، ”آپ کا بیٹا ہمیں مضامین بھجوا رہا ہے اس سے ملاقات تو کرائیے“۔ والد صاحب نے میری طرف اشارہ کیا کہ یہ مضمون نگار تو آپ کے پاس بیٹھا ہوا ہے جس پر مولوی صاحب نے کہا کہ میں یہ سمجھ رہا تھا کہ یہ آپ کے سب سے چھوٹے بیٹے ہیں اور مضمون نگار بیٹا کوئی اور ہے۔ مدیر اور مضمون نگار کے اس رشتہ کے علاوہ بلال زبیری اور میرے درمیان ایک قدر مشترک نامہ نگاری تھی۔ وہ اس وقت ایک معروف اور تجربہ کار نامہ نگار تھے اور میں ایک نو آموز نامہ نگار جو صحافت میں اپنے لئے راستہ تلاش کررہا تھا۔
ٹوبہ ٹیک سنگھ میں منعقدہ جس محفل مشاعرہ کا میں ذکر کررہاہوں اس میں دوسرے شعراءکے علاوہ جناب ساحر صدیقی مرحوم اور جناب ساغر صدیقی مرحوم نے بھی اپنا کلام سنایا۔ جب یہ مشاعرہ اختتام پذیر ہوا تو بلال زبیری سے پہلی بار میری ملاقات ہوئی، مگر وہ اس تپاک اور محبت سے ملے جیسے برسوں سے ملاقات ہو، میں نے انہیں اپنے مکان پر قیام کی دعوت دی۔ بلال زبیری میرے ہاں قیام پذیر ہوئے ۔ آج جو لوگ اخبارات میں جھنگ کی خبریں بڑی بڑی سرخیوں کے ساتھ پڑھتے ہیں انہیں کیا معلوم کہ پہلی بار جھنگ کو اخباری نقشے پر لانے والا کون شخص تھا۔ یہ تھے بلال زبیری اور اس کے بعد عرفان چغتائی۔ بلال زبیری جگر کے سرطان کا شکار ہو کراللہ کو پیارے ہوگئے اور عرفان چغتائی موچی والہ کیس میں جرا ت و بے باکی کا پرچم بلند کرکے ”نوائے وقت“ سے وابستہ ہوئے اور حادثہ قاہرہ میں لقمہ اجل بنے۔
جھنگ اگرچہ ایک پسماندہ ضلع ہے مگر قیام پاکستان کے بعد یہاں سے کئی جرائد نکلنا شروع ہوئے۔ عرفان چغتائی نے ”قلندر“ اور ”سکندر“ پندرہ روزہ جرائد شروع کئے۔ ایثار راعی نے ہفت روزہ ”وقار“ نکالا اور بلال زبیری اور ساحر صدیقی نے ”صنعتی پاکستان“ کی ادارت کی۔ غلام محمد رنگین نے ہفت روزہ ”عروج“ نکالا، مگر ان سب میں بلال زبیری کو امتیازی حیثیت حاصل رہی۔ گزشتہ تیس سال میں جھنگ کا کوئی سیاسی اور صحافتی معرکہ ایسا نہیں ہے جس میں بلال زبیری نے اہم کردار ادانہ کیا ہو اور وہ جس استقلال اور استقامت کے ساتھ مسلسل تیس برس تک کسی لالچ کے بغیر ایک اخباری ادارہ سے وابستہ رہے وہ ایک ایسی روشن مثال ہے جو اس دور میں کم ہی ملے گی۔ بلال زبیری کی شخصیت کو جاننے اور پہچاننے کے لئے ضروری ہے کہ اس کی زندگی کے بعض اہم موڑ ہمارے ذہن میں ہوں۔
