اسلام آباد:پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے قومی کمیشن برائے اقلیت حقوق بل 2025 کثرت رائے سے منظور کر لیا گیا، 160 اراکین نے تحریک کی حمایت اور 79 اراکین نے مخالفت کی جبکہ شدید نعرے بازی کے بعد اپوزیشن اراکین ایوان سے چلے گئے۔
پیپلز پارٹی نے تحریک کی حمایت کی جبکہ پیپلز پارٹی کے قادر پٹیل نے مخالفت کر دی اور ایوان سے چلے گئے۔ سینیٹر عبد القادر اور ایمل ولی خان نے بھی بل کی مخالفت کر دی۔
اپوزیشن جماعتوں نے شدید نعرے بازی کرتے ہوئے ’’ناموس رسالت زندہ باد، نعرے تکبیر، اللہ اکبر‘‘ کے نعرے لگائے۔ اپوزیشن کی شدید نعرے بازی کے باعث اسپیکر اور وزیر قانون نے ہیڈ فون لگا لیے۔
اس موقع پر وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ یہ اقلیتوں کے حقوق کا بل ہے، قیدی نمبر 804 کو کچھ نہیں ہوگا۔ یہ انتہائی اہم قانون ہے۔ اقلیتوں کی تعریف کی وضاحت کر دی گئی ہے۔
قومی کمیشن برائے حقوق اقلیتاں بل 2025 کی شق وار منظوری لی گئی۔
قومی کمیشن حقوق اقلیتاں بل سے شق 35 حذف کر دی گئی، وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے شق واپس لے لی۔
جے یو آئی ف کی جانب نے ترمیم عالیہ کامران نے پیش کی، شق 35 حذف کرنے کی ترمیم کثرت رائے سے منظور کر لی گئی۔
کنوینشن برائے حیاتیاتی اور زہریلے ہتھیار عمل درآمد بل 2024، پاکستان ارادہ برائے مینیجمنٹ سائنسز ٹیکنالوجی بل 2023، نیشنل یونیورسٹی آف سیکیورٹی سائنسز اسلام آباد بل 2023، اخوت انسٹیٹیوٹ قصور بل 2023 اور گھرکی انسٹیٹیوٹ برائے سائنس و ٹیکنالوجی بل 2025 بھی کثرت رائے سے منظور کر لیا گیا۔
قومی اسمبلی سیکرٹریٹ ملازمین ترمیمی بل 2025 بھی ایوان میں پیش کیا گیا، جس کی شق وار منظوری لی گئی۔ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دیا گیا۔
دوران اجلاس اراکین کا اظہار خیال
قبل ازیں، مجلس شوریٰ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کی صدارت شروع ہوا جس میں اعظم نذیر تارڑ نے قومی کمیشن برائے حقوق اقلیتاں بل زیر غور لانے کی تحریک پیش کی۔
تحریک پیش کرنے کے بعد وفاقی وزیر قانون اعظم نذیز تارڑ کا کہنا تھا کہ یہ غیر مسلموں کے لیے کمیشن ہے، سپریم کورٹ نے 2014 میں فیصلہ دیا تھا کہ کمیشن بنایا جائے لہٰذا اس قانون پر سیاست نہ کی جائے۔
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ اس طرح کے قانون کیوں لاتے ہیں جس کا کوئی غلط فائدہ اٹھائے، ہم ایسے قانون کی طرف کیوں جا رہے ہیں۔
وزیر قانون کا کہنا تھا کہ کمیشن کے قیام کا مقصد ملک کی اقلیتی برادری کے حقوق کے تحفظ ہے، 10 سال پہلے سپریم کورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں کہا تھا کہ اقلیتیوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے خصوصی کمیشن بنایا جائے اور 10 سال بعد کمیشن کے قیام کے لیے قانونی بل مشترکہ اجلاس میں لائے ہیں۔
پی ٹی آئی چیئرمین بیرسٹر گوہر کا کہنا تھا کہ آج ایجنڈے کے مطابق آپ نے 7 قانون پاس کرنے ہیں، اقلیت والے بھی ہمارے بھائی ہیں لیکن اسلام کے خلاف کوئی قانون سازی نہیں ہو سکتی۔
اجلاس شروع ہوتے ہی اپوزیشن اراکین نے نعرے بازی بھی کی۔
وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ قرآن و سنت کے منافی کسی قسم کی قانون سازی نہیں ہو سکتی، جے یو آئی کو بھی اس حوالے سے یقین دہانی کروائی ہے، اس کے باوجود کامران مرتضیٰ کا کہنا ہے اس کی شق 35 کو حذف کر دیا جائے، اس پر بھی ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ یہ ہمارے خمیر میں نہیں کہ کسی بھی صورت ایسی قانون سازی ہو جس سے قادیانی فتنے کو ہوا ملے۔
جے یو آئی رہنما کامران مرتضیٰ کا کہنا تھا کہ ہم کبھی یہ تاثر نہیں دینا چاہتے کہ ہم اقلیتوں کے خلاف ہیں کیونکہ ہم اقلیتوں کو اپنے برابر کا شہری سمجھتے ہیں۔
کامران مرتضیٰ نے کہا کہ اس قانون میں دو چیزیں بہت قابل اعتراض ہیں، یہ قانون منظور ہوگیا تو قادیانیوں کے لیے بنایا گیا پہلا قانون غیر مؤثر ہو جائے گا لہٰذا اس قانون میں سے یہ شق نکالنی ضروری ہے۔
اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ آئین کہتا ہے قادیانی غیر مسلم ہیں، ہم سیکشن 35 کو ہٹا دیتے ہیں، کامران مرتضیٰ کو دکھ یہ ہے دوسری عدالت کا سوموٹو ختم کیوں ہوا ہے، 12 سال سے یہ پینڈنگ ہے اس کو پاس کیا جائے۔
اسپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ آج یہاں بھی سوموٹو ہوگیا، عالیہ کامران نے کامران مرتضیٰ کے خلاف سوموٹو لے لیا۔
علامہ راجا ناصر عباس کا کہنا تھا کہ اس وقت پاکستان میں بڑا مسئلہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا ہے، لوگوں کوحقوق نہیں مل رہے، مشترکہ اجلاس ہے مگر کوئی اپوزیشن لیڈر نہیں، اگر چاہتے ہیں اپوزیشن کردار ادا کرے تو ان کو حقوق دیں۔ تمام قانون سازی عجلت اور جلد بازی میں ہو رہی ہے۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ یہ دوبارہ پٹارا کھولنے والی بات ہے۔
سینیٹر نور الحق قادری نے کہا کہ داڑھی اور پگڑیوں والوں کو اقلیتوں سے کوئی مسئلہ نہیں، پی ٹی آئی اور جے یو آئی کا اس معاملے پر ایک موقف ہے۔ ہندو، سکھوں اور کرسچنوں کے حوالے سے کوئی اختلاف نہیں مگر قادیانیوں کے حوالے سے تشویش ہے، یہ بل تابوت میں آخری کیل ثابت ہوگا۔
پیپلز پارٹی کے قادر پٹیل کا کہنا تھا کہ قادیانیوں کو اس وزیر اعظم نے کافر قرار دیا جس کی داڑھی نہیں تھی، قیامت والے دن اس پر ہماری پکڑ ہونی ہے۔ اس وقت امت محمدی کا مسئلہ ہے، وزیر قانون ایسا کوئی دروازہ نہ کھولا جائے، ہم ایسا کوئی قانون پاس نہیں ہونے دیں گے۔




