بھارتی عدالت ڈھٹائی پر قائم؛ تاریخی مسجد میں پوجا جاری رکھنے کی اجازت

نئی دہلی: الٰہ آباد ہائی کورٹ نے تاریخی گیانواپی مسجد کے 4 تہہ خانوں میں سے ایک تہہ خانے میں پوجا کی اجازت دینے کے فیصلے کے خلاف مسجد کمیٹی کی دائر درخواست خارج کردی۔

بھارتی میڈیا کے مطابق وارانسی کی ضلعی عدالت میں گیانواپی مسجد میں پوجا کی اجازت دینے کے خلاف مسجد کمیٹی کی درخواست کی سماعت ہوئی جس میں جسٹس روہت رنجن اگروال نے فیصلہ سنایا کہ مسجد کے ویاس تہہ خانہ میں پوجا جاری رکھی جائے۔

مسجد کمیٹی نے یہ درخواست اُس عدالتی حکم کے خلاف دی تھی جس میں ہندو شہری شیلیندر کمار پاٹھک نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کے نانا سومناتھ ویاس گیانواپی مسجد کے اس تہہ خانے میں دسمبر 1993 تک پوجا کرتے آئے تھے۔
مسجد کے 4 تہہ خانے ہیں جن میں سے ایک تہہ خانہ پر سومناتھ ویاس کا خاندان ملکیت کا دعویٰ کرتا آیا ہے۔ شیلیندر کمار نے عدالت سے درخواست کی تھی کہ موروثی پجاری کے طور پر انہیں تہہ خانے میں داخل ہونے اور پوجا کی اجازت دی جائے۔

جس پر عدالت نے انھیں مسجد کے تہہ خانے میں جانے اور پوجا کرنے کی اجازت دیدی تھی۔

تاہم اب مسجد کمیٹی نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا اور مؤقف پیش کیا تھا کہ تہہ خانے میں کوئی بت موجود نہیں تھا، اس لیے وہاں 1993 تک پوجا کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔

مسجد کمیٹی کے وکلا نے مزید کہا تھا کہ شیلیندر کمار نے غلط بیانی کرکے مقامی عدالت سے پوجا کا اجازت نامہ حاصل کیا تھا۔ اس لیے معزز عدالت اس حکم نامے کو منسوخ کرے۔

تاہم سپریم کورٹ نے وارانسی ڈسٹرکٹ کورٹ کے حکم کے خلاف سماعت کرنے سے انکار کرتے ہوئے مسجد کمیٹی کو ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کی ہدایت کی تھی۔

خیال رہے کہ دو سال قبل اسی مسجد کے وضو خانے سے ایک قدیم فوارا ملنے پر انتہا پسندوں نے طوفان مچایا تھا کہ یہ ان کا مقدس شیولنگ ہے جس سے مسجد کے مندر ہونے کا ثبوت ملتا ہے۔

جس جگہ سے یہ خود ساختہ شیولنگ ملا تھا وہاں ہندوؤں نے داخل ہوکر پوجا پاٹ کی کوشش بھی کی تھی اور معاملہ کوٹ کچہری تک پہنچا جس پر 2022 میں سپریم کورٹ کے حکم پر وضو خانے کو بھی سِیل کردیا گیا تھا۔

بعد ازاں ہندو فریق نے اب عدالت سے مسجد کی آرکیالوجیکل سروے کروانے کی درخواست کی جسے گزشتہ ماہ الٰہ آباد ہائی کورٹ نے مسترد کردیا تھا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں