عدلیہ کا کرپشن میں دوسرا نمبر، پشاور ہائیکورٹ نے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل سے ثبوت مانگ لیے

پشاور: چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ نے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ میں عدلیہ کو کرپٹ ادارہ قرار دینے کا نوٹس لیتے ہوئے ان سے رپورٹ اور ثبوت مانگ لیے، چیف جسٹس نے کہا ہے کہ کرپشن کہاں ہو رہی ہے ثبوت دیں تاکہ ججز کے خلاف کارروائی ہو ورنہ رپورٹ واپس لیں۔

ٹرانسپیرنسی کی رپورٹ کے خلاف سماعت چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ جسٹس محمد ابراہیم خان پر مشتمل بینچ نے کی۔ سماعت شروع ہوئی تو ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل بورڈ ممبر حشمت حبیب ملک اور وکلاء کامران حشمت، بروج حشمت اور نادیہ حشمت عدالت میں پیش ہوئے۔

چیف جسٹس نے ان سے استفسار کیا کہ ہائیکورٹ میں کہاں کرپشن ہوتی ہے پہلے وہ ہمیں بتا دیں، پہلے ہائیکورٹ کا بتائیں ہم خود عدلیہ کو صاف کریں گے پھر ڈسٹرکٹ جوڈیشری کی بات کریں گے۔

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل بورڈ کے ممبر حشمت حبیب ملک نے عدالت کو بتایا کہ ہماری رپورٹ عوام کی رائے پر مبنی ہوتی ہے، ہم نے لوگوں کی رائے لی اور اس بنیاد پر رپورٹ بنائی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کی رپورٹ میں عدلیہ کو دوسرے نمبر پر کرپٹ کہا گیا ہے، اس سے تو بدنامی ہورہی ہے، لوگ عدلیہ کا مذاق اڑا رہے ہیں ہمیں بتا دیں کرپشن کہا ہوتی ہے؟ ہم اپنا احتساب کریں گے جہاں خرابی ہے اس کو ٹھیک کریں گے چیف جسٹس سمیت جو بھی جج کرپشن میں ملوث ہوں اس کے خلاف کارروائی کریں گے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اگر مجھ میں کوئی خرابی ہے تو بھی بتا دیں خدا کی قسم اپنے خلاف بھی لکھوں گا ایک جج بھی کرپشن میں ملوث ہوں تو قانون کے مطابق ان کے خلاف ایسی کارروائی کریں گے کہ مثال بن جائے گی۔

حشمت حبیب ملک نے کہا کہ ہم نے رپورٹ رجسٹرار آفس کو فراہم کردی ہے آپ رپورٹ دیکھیں گے تو پھر معاملہ واضح ہوجائے گا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ میں خود اس رپورٹ کو دیکھ لوں گا۔

بعدازاں عدالت نے کیس کی مزید سماعت 15 جنوری تک کے لیے ملتوی کرتے ہوئے رپورٹ طلب کرلی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں