نواحی آبادیوں سے آگ کے شعلے بلند ہورہے تھے ۔ سکھ اپنی کرپانیں لہرارہے تھے اور مسلمانوں کو تہس نہس کرنے کے لئے للکار رہے تھے ۔ اب ہماری منزل کوئی اور محلہ تھا۔ اب مجھے ان گلی محلوں کے نام تو یاد نہیں ہیں لیکن دکھائی یہ دے رہا تھا کہ موت ہمارا پیچھا کررہی ہے ، ہم اس کے آگے ہیں اور وہ پیچھے ۔ ایک مکان میں قدرے سکون تھا لیکن حویلی کا مالک چیختا چلّا تا آیا اور اس نے کہا کہ سکھ تلواریں لئے اس گھر پر حملہ کرنے والے ہیں اور قبل اس کے کہ وہ آئیں اور عورتوں کو اغواءکرلیں، عورتیں صحن میں بجلی کی تار کو ہاتھ لگا کر اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کردیں۔ ہماری والدہ بھی ہمیں لے کر صحن کی طرف جارہی تھیں کہ ان کی نظر پانی کے ایک نل پر پڑی انہوں نے سوچا کہ مرنے سے پہلے بچوں کو پانی تو پلادوں لیکن وہ ابھی نل کے قریب ہی پہنچ پائی تھیں کہ ہمارے ماموں کی نظر ہم پر پڑی اور وہ ہمیں گھسٹیتے اور کھینچتے ہوئے اس حویلی سے باہر لے گئے۔
میرے والد صاحب کا تعلق اگرچہ ایک ایسے خاندان سے تھا جس کی دلچسپی کا زیادہ تر مرکز کاروبار تھا مگر یہ ایک عجیب اتفاق ہے کہ میرے دادا اور ان کے بڑے بھائی اور ان کی اولاد صرف کاروبار سے ہی سروکار رکھتے تھے مگر میرے والد ، میرے تایا اور چچا اپنے اپنے کاروباری مشاغل میں مصروفیت کے باوجود کسی نہ کسی سیاسی جماعت سے بھی تعلق استوار کئے ہوئے تھے البتہ پاکستان بننے کے بعد میرے والد اور ان کے دیگر بھائیوں نے سیاست سے تعلق توڑ لیا۔ صرف میرے تایا قاضی نصیر الدین سرہندی جماعت اسلامی سے وابستہ رہے ۔ میرے والد کو سرہند شریف سے ٹوبہ ٹیک سنگھ آنے کے بعد مہاجرین کی آباد کاری کے مسائل سے بہت دلچسپی رہی اور آباد کاری کے حکام نے لوٹ کھسوٹ کا جو بازار گرم کر رکھا تھا ، انہیں بہت ناگوار گزرتا تھا۔ ان کی پہلی غیر سیاسی سر گرمی یہ تھی کہ انہوں نے انجمن مہاجرین کے نام سے ایک غیر سیاسی جماعت تشکیل دی جس کا کام مہاجرین کی مشکلات دُور کرنا ، انہیں قانونی رہنمائی مہیا کرنا اور محکمہ آباد کاری کے حکام کی چیرہ دستیوں سے محفوظ رکھنا تھا ۔ انجمن مہاجرین کی داغ بیل ڈالنے کا مہاجرین کو کوئی فائدہ ہوا یا نہیں لیکن والد صاحب کو یہ نقصان ضرور ہوا کہ انہیں سرہند میں چھوڑی ہوئی اپنی جائیداد کے عوض کوئی دکان الاٹ ہوئی اور نہ کوئی مکان ملا بلکہ میرے جن چچا صاحب کو مین بازار میں ایک دکان الاٹ بھی ہوگئی تھی انہیں بھی اس کی سزا ملی اور ڈپٹی ری ہیبلی ٹیشن آفیسر نے وہ دکان ہمارے دو اور عزیزوں کو الاٹ کردی جس کا نہ صرف چچا صاحب کو نقصان ہوا بلکہ ہمارے اور ہمارے قریبی عزیزوں کے درمیان نہ ختم ہونے والی دُوری بھی پیدا ہوگئی مگر والد صاحب نے نتائج کی کوئی پَروا نہ کی اور رشوت ستانی کے واقعات کے خلاف جدوجہد جاری رکھی ، اس مقصد کے لئے وہ لاہور کے روز نامہ ” مہاجر“ لائل پور کے روز نامہ” انصاف“ اور پھر لائل پور ہی کے روز نامہ ”غریب “ کے ساتھ بطور نامہ نگار وابستہ ہوئے۔ ان اخبارات میں بھی ان کی تحریروں کا مقصدو محور مہاجرین کے مسائل ہی رہا ۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ میں چونکہ مہاجرین کی بڑی تعداد سرہند شریف سے آ کر آباد ہوئی تھی ، اس لئے ہمارے گھر میں ہر وقت مہاجر مردوں اور عورتوں کا جمگھٹا لگا رہتا تھا۔ ہماری بیٹھک کے باہر سیکڑوں لوگوں کے جُوتے پڑے رہتے تھے جو والد صاحب سے ملاقات اور رہنمائی کے انتظار میں اپنے کئی کئی گھنٹے ہمارے گھر میں بسر کرتے تھے ۔ والد صاحب ٹوبہ ٹیک سنگھ میونسپل کمیٹی کے برسوں نامزد اور پھر منتخب کونسلر اور وائس پریذیڈنٹ بھی رہے ۔ وائس پریذیڈنٹ کی حیثیت سے انہوں نے شور کوٹ بازار کے نام سے ایک نیا بازار آباد کیا اور اس بازار میں ریلوے سٹیشن کو جانے والے راستہ پر کونے کی ایک دکان بھی خود حاصل کی مگر یہاں کوئی کاروبار کرنے کے بجائے انہوں نے ایک سبیل بنادی اور حضرت مجدد الف ثانی ؒ کے نام پر اس کا نام رکھا۔ ” مجددیہ سبیل“۔ یہ سبیل ان کے انتقال کے 44 سال بعد بھی سبیل کے طورپر ہی جاری ہے۔ اگر چہ والد صاحب کو اور ان کی رحلت کے بعد ہمیں بھی اس دکان کے عوض کافی مالی پیشکشیں ہوتی رہیں مگر ہم نے والد صاحب کی رُوح کو خوش کرنے کے لئے یہاں مسافروں کو پانی پلانے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے ۔ ہمارے خاندان بالخصوص میرے دادا اور والد صاحب رفاہی کاموں میں پانی پلانے کوبہت اہمیت دیتے تھے ، سرہند شریف میں بھی جب حضرت مجدد الف ثانیؓ کا عرس ہوتا تھا تو ہمارے خاندان کے افراد روضہ شریف کے صدر دروازے پر زائرین کو پانی پلانے کی خدمت انجام دیتے تھے ۔ انہوںنے سرہند ریلوے سٹیشن پر اور قیام پاکستان کے بعد ٹوبہ ٹیک سنگھ ریلوے سٹیشن پر پانی کی سبیلیں لگانے کا بھی اہتمام کیا ہوا تھا۔ والد صاحب نے بطور وائس پریذیڈنٹ ایک نئی بستی آباد کرنے کا بھی منصوبہ بنایا ۔ یہ منصوبہ ان لوگوں کے لئے تھا جو بے آباد رہے تھے اور جنہیں ہندوﺅں کے چھوڑے ہوئے مکانات الاٹ نہیں ہوسکے تھے ۔ والد صاحب نے اس بستی کا نام” سرہند بستی“ رکھا اور اسی طرح یہاں جو جامع مسجد تعمیر ہوئی اس کو ” مجددیہ مسجد“ کا نام دیا ۔ یہ سرہند اور حضرت مجدد الف ثانیؓ سے ان کی لازوال وابستگی کی چھوٹی چھوٹی مثالیں ہیں۔ والد صاحب انجمن مہاجرین کے پلیٹ فارم سے مہاجرین کی مشکلات اجاگر کرنے کے لئے اکثر غلہ منڈی میں جلسے منعقد کرتے تھے ۔ میری عمر اگر چہ ابھی کم ہی تھی مگرسٹیج سیکرٹری کے فرائض میں انجام دیتا تھا ۔ والد صاحب کی یہ آرزو جو کبھی پُوری نہیں ہوسکی کہ میں ان جلسوں میں ترنم سے نظمیں بھی پڑھا کروں مگر مجھے یہ فائدہ ضرور ہوا کہ ایک مقرر کی حیثیت سے میری تربیت ہوتی رہی۔ اس سلسلے کا آخری جلسہ جہاں تک میرا حافظہ کام دیتا ہے ، وہ تھا جہاں والد صاحب کے دوست محمد رمضان صاحب تقریر کررہے تھے کہ اچانک یہ آواز یں بلند ہونے لگیں کہ غلہ منڈی سے باہر ملک کریانہ سٹور کی دکان میں آگ لگ گئی ہے۔ یہ سنتے ہی اور کچھ ہی فاصلے پر آگ کے شعلے بلند ہوتے دیکھ کر اور دُھواں آسمان کی طرف بلند ہوتے ہوئے یہ جلسہ کسی اعلان کے بغیر ختم ہوگیا اور ہم سب ملک کر یانہ سٹور کی طرف چلے گئے۔ ہر شخص کی کوشش تھی کہ وہ آگ بجھانے کے لئے ہاتھ پاﺅں مار سکے ۔ میں بھی ان رضا کاروں میں شامل تھا جو دکان کے اندر جاتے تھے اور کچھ نہ کچھ اٹھا کر باہر سڑک پر لاکر رکھ دیتے تھے ۔ میرے والد صاحب کے قریبی ساتھی محمد رمضان بڑی جانفشانی سے یہ فرض ادا کررہے تھے کہ اچانک مکان کی چھت منہدم ہوگئی اور ملبے تلے کئی لوگ دب گئے اور اس میں محمد رمضان صاحب نے جام شہادت نوش کرلیا۔(جاری ہے)
