خان صاحب کی حکومت آنے جانے کی کہانی سمجھنے سے پہلے خان صاحب کی نفسیات، سوچ، نظریے اور اندازِ سیاست کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ خان صاحب کی سیاست نعروں، احتجاج، دھمکیوں اور دھرنوں سے شروع اور ختم ہوتی ہے۔ خان صاحب کو سمجھنے سے پہلے ہمیں اپنی نفسیات کو بھی پڑھنا ہوگا جیسا کہ میں نے دوستی، تعلق، رشتے داری اور تعلق استواری بارے ایک سوچ اپنا رکھی ہے جس سے آپ اختلاف بھی کر سکتے ہیں، اسی باعث مجھے شاذ و نادر ہی کسی سے دیرپا یا عارضی تعلق بنانے میں کوئی دشواری پیش آئی ہو۔ زندگی بھر اچھے، برے، خوشامدی، چاپلوس، مخلص، منہ پر کھری بات کرنے والوں سے تعلق بنتے ٹوٹتے رہے لیکن ایک بات طے شدہ ہے کہ آپ کسی بھی انسان کی اچھی بُری فطرت کبھی تبدیل نہیں کر سکتے۔ آپ اس آزمودہ فارمولے کو خود بھی آزما سکتے ہیں۔ تھوڑے بہت فرق سے آپ اسی نتیجے پر پہنچیں گے کہ بچپن اور جوانی کے درمیانی عرصہ میں آپ نے جن افراد سے دوستیاں قائم کیں، تعلق نبھایا، رفتہ رفتہ کسی نہ کسی وجہ سے وہ آپ سے یا آپ ان سے قریب یا د ور ہوتے گئے۔ آپ اپنے بچپن سے جوانی تک کے دنوں کو یاد کیجئے، پھر سوچئے کہ کس نے کس مشکل میں آپ کا ساتھ دیا اور کون کس بات پر ناراض ہوکر آپ سے د ور ہوتا چلا گیا۔ پھر انہی لوگوں سے زندگی کے کسی موڑ پر دوبارہ میل ملاقاتیں شروع ہو جائیں تو محسوس کریں گے کہ آپ بچپن کی طرف لوٹ رہے ہیں اور ایک بار پھر انہی موضوعات یا ا ن سے قریب تر آپ کے خیالات پھر ٹکراﺅ کا شکار ہونے لگتے ہیں۔ یعنی ضدی لوگ پھر ضد پر ڈٹ جاتے ہیں، محبت کرنے والے کسی طرح تکرار ختم کرانے کی کوشش کرتے ہیں، بی جمالو ٹائپ افراد اس تکرار کو بظاہر شرارتی انداز میں ختم کرانے کی بجائے جلتی پر تیل چھڑکتے نظر آتے ہیں۔ پھر ہم وہیں کھڑے نظر آتے ہیں جہاں بچپن میں یہ تعلق قائم ہوا اور اچانک ٹوٹ گیا تھا۔ یعنی انسان کی فطرت کبھی تبدیل نہیں ہوتی۔ کچھ لوگ خود کو نمایاں رکھنے کو ہی اپنی کامیابی سمجھتے تھے۔ جو لوگ بچپن میں کسی کی کامیابی سے حسد کا شکار ہو جاتے تھے وہ اب بھی یہی کام کرتے نظر آتے ہیں۔ جن لوگوں کو بچپن میں سولو فوٹو (انفرادی تصویر) کھنچوانے کا شوق تھا وہ اب بھی اسی شوق میں مبتلا نظر آتے ہیں (خان صاحب کے اداکار شان کے ساتھ انٹرویو میں لائٹ خراب ہونے کے معاملے کو ہی دیکھ لیں) جو ٹیم ورک پر یقین رکھتے تھے، وہ اب بھی ایک دوسرے کو جوڑ ے رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جن کلاس فیلوز کو ہم نے خودنمائی کا شکار دیکھا، جو زور زبردستی سے اپنے نظریات دوسروں پر مسلط کرتے تھے، وہ اب بھی اپنا یہ کام بخوبی سر انجام دیتے نظر آتے ہیں۔ ہر کوئی اپنی فطرت پر قائم و دائم ہے۔ میں نے اپنی زندگی کا یہ واحد تجربہ پلے باندھ رکھا ہے کہ آپ کسی کی سوچ کو وقتی طور پر تو تبدیل کر سکتے ہیں لیکن وقت آنے پر وہ شخص دوبارہ وہی حرکت دہرائے گا جو اس نے ماضی میں دہرائی تھی۔ میں اپنے بچپن، اسکول، کالج، یونیورسٹی کے دوستوں کے تعلق اور رویے کا جب مجموعی طور پر تجزیہ کرتا ہوں کہ جب سوشل میڈیا کے ذریعے ان تمام گروپوں سے تقریباً 30برس بعد دوبارہ تعلق قائم ہوا تو ایک بار پھر یہی نتیجہ نکلا کہ ان برسوں میں کوئی ایک بھی اپنی فطرت تبدیل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ میں حیران بھی ہوتا ہوں کہ بڑھاپے کا سفر ہونے کے باوجود جس کے ساتھ اسکول میں گہری دوستی تھی وہ اب بھی قائم ہے، جو کلاس میں تکرار کرتا تھا وہ اب بھی ا سی پر ڈٹا کھڑا ہے۔ یہ نہ ختم ہونے والی تمہید صرف اس لیے باندھنا پڑی کہ آپس میں دست و گریبان ہونے کی بجائے آپ جس شخص کو اپنا آخری مسیحا سمجھ رہے ہیں، پہلے اس کی فطرت اور نفسیات کو سمجھ تو لیں کہ وہ اقتدار میں آنے کے بعد پہلے دن سے ہی ہٹلر، مسولینی، نپولین بونا پارٹ کی مثالیں کیوں دیتا تھا کیونکہ اس کی سوچ ان لوگوں کے قریب تر نظر آتی ہے، وزیراعظم عمران خان سے جب ہم 19نومبر 2018ءکی ایک دوپہر کالم نگاروں کے ایک گروپ کے ہمراہ وزیراعظم ہاﺅس میں ملے، یہ ملاقات شاید بطور وزیراعظم پاکستان عمران خان کی صحافیوں اور کالم نگاروں سے پہلی باضابطہ ملاقات تھی اور یہ اس حوالے سے بھی تاریخ کا حصہ رہے گی کہ خان صاحب نے پہلی بار کہا تھا کہ ”حقیقی لیڈر وہ ہوتا ہے جووقت آنے پر یوٹرن لیتا ہے۔ بروقت یوٹرن نہ لینے والا لیڈر ہو ہی نہیں سکتا“۔ راقم اس مشاورت نما ملاقات میں موجود تھا اور خان صاحب کے اس جواب پر حیرت ہو رہی تھی کہ آخر وہ ایسا کیوں کہہ رہے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے جب اس کی وضاحت کی تو کہنے لگے کہ ہٹلر اور نپولین بونا پارٹ کو روس کے ہاتھوں اسی لیے شکست ہوئی کہ انہوں نے اپنی حکمت عملی بروقت تبدیل نہیں کی اور ساتھ ہی یہ کہا کہ لیڈر کو ضرورت کے تحت یوٹرن لینے کے لیے ہر وقت تیار رہنا چاہیے۔ انسان اپنے اندر چھپے خیالات، جذبات اور آنے والے دنوں میں وہ کیا کرنے جارہا ہے، کسی نہ کسی انداز میں ظاہر کر دیتا ہے۔ اپوزیشن کے ہوشیار، چالاک، ماہر امراضِ نفسیات رہنماﺅں نے خان صاحب کی اس سوچ کو ابتدائی دنوں میں ہی پڑھ لیا تھا کہ وہ آئندہ کیا کرنے جارہے ہیں۔ اپوزیشن نے خان کی انتہا پسندانہ سوچ کو اپنی پروپیگنڈا مہم کا حصہ بنایا اور اسے ”ماسٹر آف یوٹرنز“ قرار دے دیا اور عوام کو گاہے گاہے یہ باور کراتے رہے کہ خان صاحب ان سے کیے وعدوں پر بار بار یوٹرن لے رہے ہیں اور اپنا کوئی بھی وعدہ پُورا نہیں کر رہے۔ یہ بات عمران خان سے یوٹرن خان تک جا پہنچی۔ اس بیان کے ردِعمل میں پیپلز پارٹی کے سینئر ترین رہنما سید خورشید شاہ نے کہا کہ ”ہٹلر ایک آمر تھا اور عمران خان آج کے دور کا ہٹلر ہے“۔ پاکستان کی سیاست میں ہٹلر کا لفظ باقاعدہ طور پر خان صاحب نے متعارف کرایا۔ (جاری ہے)
