گیس والا غبارہ

اب تو وہ زمانے ہی نہیں رہے کہ جب گلی کی نکُڑ پر چھوٹی چھوٹی گیس ٹینکیاں نظر آتی تھیں، والدین بچوں کا دل بہلانے کو اٹھنی چونی کے عوض غباروں میں گیس بھروا کر دیتے۔ جب غبارے میں تازہ تازہ گیس بھری جاتی تو وہ راکٹ کی مانند شُوں کرکے فضا میں بلند ہوتا، بچے انگلی پر دھاگہ لپیٹ کر غبارے کو ہوا میں اُڑتا دیکھ کر بہت خوش ہوتے۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا کہ گیس بھرا غبارہ انگلی سے چُھوٹ کر کہیں دور آسمان میں کھو جاتا یا کمرے کی اونچی چھت پر جالگتا۔ اگر کوئی بڑا مدد کو نہ آتا تو لاکھ تگ و دو ، ڈنڈوں، سوٹوں کے استعمال کے باوجود بچے سر کھپا کر اس انتظار میں بیٹھ جاتے کہ کب غبارے میں بھری گیس کم ہو اور وہ زمین پر آگرے۔ جوں جوں غبارے سے گیس خارج ہوتی پھُس پھُسی شکل بنائے زمین پر آلگتا، خان کا سیاسی سفر بھی گیس والے غبارے سے کچھ زیادہ مختلف نہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ جب تک غبارہ انگلی پردھاگے سے بندھا رہا خوب صورت لگتا تھا۔ دھاگہ ٹوٹا تو آسمان میں کہیں گم ہوتا نظر آرہا ہے۔ خیر وزیراعظم خان سے پہلی ملاقات کی کہانی آگے بڑھاتے ہیں کہ آج جو گھر گھر مہنگائی کا سیاپا ہو رہا ہے اور خانوں کے خان اس سیاپے میں پھپھے کٹنی جیسا بین کرتے اپنے اگلے پچھلوں کو یاد کرکے پاکستان کے مستقبل بارے بدگوئیاں کررہے ہیں امریکی سازش کے ساتھ ساتھ اب اسرائیل سے تعلقات کی باسی دال کوجو تڑکا لگا رہے ہیں اور اسرائیل جانے والے وفد کو پاکستانی قرار دے رہے ہیں یہ وہی وفد ہے جس کو اسرائیل جانے کا اجازت نامہ انہی کے دورِ حکومت میں جاری کیا گیا تھا۔ کیا یہ بھی یاد دلانا پڑے گا کہ وزیراعظم خان کے دورمیں ہی ایک رات اسرائیلی طیارہ اسلام آباد کے ہوائی اڈے پر اچانک اُترا تھا اور پاکستانی میڈیا نے بوجوہ اس ایشو کو گول مول کرکے پیش کیا۔ آج خان مستقبل کی بدگوئیاں کرکے اسٹیبلشمنٹ کو دباﺅ میں لانے کا ایک ایسا گھناﺅنا کھیل کھیل رہے ہیں جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ بات وزیراعظم خان کے ہٹلر، نپولین بوناپارٹ سے متاثر ہونے پر ختم ہوئی تھی کہ جب وزیراعظم خان سے کہا گیا کہ کچھ اپنے دورہ چین کی روداد سنائیں کہ آخر کیا حاصل وصول ہوا؟ کیا چین نوازشریف کی طرح آپ پر بھی اعتماد کرتے ہوئے سی پیک کو آگے بڑھانے ہماری مدد کو آئے گا؟ تو جواب ملا، میرا دورہ چین میری سوچ سے بھی زیادہ کامیاب رہا۔ چین سے اربوں ڈالر کا پیکیج ملنے والا ہے۔ تفصیل جاننے کی کوشش کی تو کہنے لگے کہ یہ تفصیلات خفیہ ہیں، انہیں منظر عام پر نہیں لایا جاسکتا۔ چین سی پیک کی صورت میں خصوصی انڈسٹریل زونز میں ٹیکنالوجی کی منتقلی کے ساتھ ساتھ انڈسٹری بھی لگائے گا جس سے لاکھوں افراد کو روز گار ملے گا، ترقی اور خوش حالی آئے گی جبکہ وزیراعظم کی گفتگو کے برعکس مصدقہ اطلاعات یہ مل رہی تھیں کہ وزیراعظم خان نے سی پیک کے خفیہ معاہدے کی خلاف ورزی کی اور آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کی پہلی شرط کو پورا کرنے کے عوض سی پیک کا خفیہ بلیو پرنٹ اس کے حوالے کر دیا ، جس سے چینی قیادت وزیراعظم خان سے شدید ناراض ہوگئی اور ہمارے دیرینہ دوست کے ساتھ تعلقات دن بہ دن ابتر ہوتے چلے گئے۔ اسی ملاقات میں بیورو کریسی خصوصاً پنجاب میں اندھا دھند اکھاڑ پچھاڑ پر بھی سوال جواب ہوئے۔ میرے ایک سوال پر وزیراعظم خان نے کہا میں پاکستان کا وزیراعظم ہوں یہ میرا اختیار ہے کہ کس بیورو کریٹ کو عہدے پر رکھنا یا ہٹانا ہے۔ (ن) لیگ کے 30 سالہ دور ِاقتدار میں وفاق اور پنجاب کی بیورو کریسی کی اکثریت ابھی تک شریف خاندان کے زیر اثر ہے۔ یہ اثر ہر صورت زائل کرنا ہوگا۔ مشورہ دیا تھوڑا انتظار کرلیں بیورو کریسی کو یہ یقین دلائیں کہ وہ حکومت پاکستان کے ماتحت ہے کسی خاندان کے نہیں۔ بیورو کریسی کو اپنا ایجنڈا پیش کریں کہ آپ صرف کرپشن فری پاکستان چاہتے ہیں۔ ماضی کے قصے کہانیوں کو نہ چھیڑیں، آگے بڑھیں تیس سال کے نظام کو ایک ہی دن میں ہلانے سے بے چینی مزید بڑھے گی۔ خوف کی فضا میں کوئی بیورو کریٹ آپ کا ساتھ نہیں دے گا۔ اگر آئندہ چھ ماہ میں آپ کو مطلوبہ نتائج نہیں ملتے تو پھر آپ فیصلہ کرنے میں حق بجانب ہیں۔ اس موقع پر بعض دوستوں نے لقمہ دیتے ہوئے کچھ نیم سرکاری اداروں میں نواز دور میں تعینات شخصیات کے نام گنوائے کہ انہیں تبدیل کیا جانا چاہئے۔ وزیراعظم خان نے پاس بیٹھے افتخار دُرانی سے کہا یہ نام نوٹ کرلیں، فوری طور پر ان اداروں میں متبادل تعیناتیاں کی جائیں۔ پھر آپ نے دیکھا کہ پونے چار سال کے دوران پنجاب میں گھگھو گھوڑے بیچنے والے عثمان بزدار کی سرپرستی میں فرح گوگی جیسوں نے کیا گُل کھلائے؟ وسیم اکرم پلس کی لانگ مارچ کے دوران پُر اسرار گمشدگی سوالیہ نشان ہے کہ آخر وہ ڈانگ سوٹے کے دوران کہاں غائب رہے۔ ممکن ہے یہ بھی خان کی کوئی حکمت عملی ہی ہو کہ آل راﺅنڈر وسیم اکرم پلس کواوکھے وقت کے لئے بچا رکھا ہو یا پھر انہیں یہ خوف ہو کہ اگر وہ کھیل کے ابتدائی حصے میں ہی مخالفین کے ہاتھ لگ گئے تو سارے راز فاش ہو جائیں گے۔ پھر فرح گوگی بچے گی نہ اس کے سہولت کار، بزدار چُوری کھانے والا ایسا طوطا ہے کہ جب پنجرے میں آئے گا تو فرفر بولے گا، وزیراعظم خان سے میری پہلی ملاقات ہی آخری ثابت ہوئی۔ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ وزیراعظم خان نے آہستہ آہستہ پاکستان کے حقیقی میڈیا سے دُوری اختیار کرکے اپنا الگ سے سوشل میڈیا نیٹ ورک بنا لیا اور اسے ہی اپنی اصل طاقت سمجھا۔ اس نیٹ ورک کو مضبوط کرنے کے لئے اربو ں روپے سرکاری فنڈز سے لگائے گئے، آج یہی نیٹ ورک خان کے ”کارناموں“ کو اُجاگر کرتے ہوئے اداروں کے خلاف زہر اُگل رہا ہے۔ وزیراعظم خان کے دورِ اقتدار میں پاکستان کے میڈیا کا جو حشر نشر کیا گیا یہ الگ ایک داستان ہے۔ معیشت کو پاﺅں پر کھڑا کرنے بارے وزیراعظم خان کی سوچ کیا تھی، خوابوں کے شہزادے کی پکچر ابھی باقی ہے۔ (جاری ہے)

اپنا تبصرہ بھیجیں