کامیابی اور کامرانی کے لئے گزرنے والے لوگوں سے جس قدر بھی خوبیاں حاصل کرسکو کرو۔ ان کا نہ صرف سر سری مطالعہ کرو بلکہ دل میں جگہ دے کر اپنا نے کی سعی کرو غریبوں اور مسکینوں سے محبت اور اخلاص سے پیش آنا بھی بہتر راہ عمل ہے بہر حال کچھ الفاظ یونہی لکھ گیا ہوں ورنہ آپ جیسے فہم و فراست کے حامل کے لئے ان کی ضرورت نہیں تھی اگر ممکن ہو تو اپنی والدہ کی دل جوئی کے لئے ہر ماہ کچھ نہ کچھ ضرور بھجوادیا کرو۔
ایک اور خط میں لکھتے ہیں کل تمہارا ایک قرض خواہ میرے پاس آیا ۔ مجھے جو ندامت اٹھا نا پڑی وہ میں ہی جانتا ہوں ابھی تو مقام شکر ہے کہ ایسے آدمی نہیں جو مجھے گردن سے پکڑ لیں میں نے ان سے ایک ماہ کا وعدہ کرلیا ہے۔ بر خوردار ،میری اس تحریر کو معمولی بات نہ خیال کرنا میری عزت آبرو اورساکھ کا سوال ہے۔ میں نے یہ بُرے دن کبھی نہ دیکھے تھے ۔ اس لئے مجبوری کی وجہ سے یہ الفاظ لکھ رہا ہوں۔ میرے ان الفاظ کو پورا کرنا تمہاری ذمہ داری ہے دوسرے مجھے اپنے صحیح صحیح حالات لکھو تاکہ میں آپ کی پریشانی میں کمی کے لئے کچھ سوچوں ایک ماہ میں ایک مرتبہ والدین کو ملنے ضرور آجایا کرو ۔ خواہ ایک رات کے لئے آﺅ ماں باپ کی طبیعت اور شفقت کچھ ایسی چیز ہے کہ کچھ نہ بھی بتاﺅ تو صبر نہیں آتا ۔ اس لئے ضرور آ کر مل جایا کرو ۔ اگر زیادہ وقت نہیں تو ایک گھنٹہ کے لئے ہی آجایا کرو ۔ اپنے اخراجات پر کڑی نظر رکھو۔ امید پر اخراجات بڑھا لینا ہر گز دانش مندی نہیں آپ لوگوں کے حالات کا اگر چہ مجھے پورا علم نہیں تو اندازہ ضرور ہوتا رہتا ہے مگر آپ نے اخفارکھنا ہی مصلحت جانا یا والدین کو اپنے حالات کی پریشانی سے بچانا مناسب خیال کیا میری دعا ہے خدا وند قدوس مجھے اپنی بار گاہ سے اتنا دے کہ میں یہ سارے حوادث برداشت کرسکوں ۔ میرے دماغ پر ان باتوں کا اس قدر بھاری وزن پڑ گیا ہے کہ الفاظ میں بیان کرنا آپ لوگوں کے لئے مزید پریشانی کا باعث ہوگا۔ مجھے امید ہے کہ قرض خواہوں کی پریشانی سے مجھے جلد نجات دلا دو گے ابھی بے شمار ذمہ داریاں مجھے آپ کے اوپر ڈالنا ہیں۔
والد صاحب نے اپنی رحلت سے کچھ عرصہ پہلے ایک روز مجھے اپنے پاس بیٹھنے کے لئے کہا اور میرے بیٹھتے ہی کسی تمہید کے بغیر فرمانے لگے میں نے اپنی زندگی میں دولت کا آنا بھی دیکھا ہے اور اس کا جانا بھی، جب اللہ تعالیٰ نے مجھے دولت عطا کی تو مجھے سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ میں اسے خرچ کہاں کروں اور جب اللہ تعالیٰ نے مجھ سے یہ دولت واپس لے لی تو مجھے کچھ سجھائی نہیں دیتا تھا کہ میں اسے دوبارہ کیسے حاصل کروں۔ اگر اللہ تعالیٰ کسی کو دولت عطا کرے تو اس کے استعمال کے سلسلے میں کچھ باتیں تمہیں کہنا چاہتا ہوں۔ اگر تمہارے علم میں اپنے محلے ، اپنے رشتے داروں اور اپنے جاننے والوں میں کوئی ایسا یتیم بچہ ہو جو تعلیم حاصل کرنا چاہتا ہو مگر اسے وسائل میسر نہ ہوں تو اسے تعلیم دلانا۔ اسی طرح اگر تمہیں اپنے محلے اور اپنے رشتے داروں اور اپنے جاننے والوں میں کسی ایسی خاتون کا علم ہو جو بیوہ ہو اور زندگی گزارنے کے وسائل سے محروم ہو تو تم اس کی خدمت کرنا اور اگر اپنے محلے ،اپنے رشتے داروں اور اپنے جاننے والوں میں کوئی بے آباد بچی تمہارے علم میں آئے تو اس کی خدمت کرنا ۔پھر مجھ سے دریافت کیا کہ بے آباد بچی سے کیا مراد ہے کیا تم سمجھتے ہو؟میں نے نفی میں جواب دیا تو فرمانے لگے کہ بے آباد بچیاں وہ ہوتی ہیں جن کے خاوند لاتعلقی اختیار کرلیتے ہیں اور وہ والدین اور بہن بھائیوں کے پاس واپس آجاتی ہیںاور پھر وہ بھی ایسی بچیوں کو بوجھ تصور کرنے لگتے ہیں۔ اس کے بعد میری ایک قریبی عزیزہ کا نام لے کر کہنے لگے کہ اس کے متعلق میں خاص طورپر کہنا چاہتا ہوں۔ ان کی بات سُن کر میں نے فوراً ہی کہا کیا میں اسے تین سو روپے ماہوار بھیج دیا کروں۔ والد صاحب نے کہا مجھے تم سے ایسی ہی بے و قوفی کی توقع تھی ۔انسان کسی کی باتیں سنتا ہے اور بغیر سوچے سمجھے اپنی استطاعت سے بڑھ کر وعدے کرلیتا ہے۔ ایک دو مہینے پیسے بھیجتا ہے اس کے بعد پیشانی پر بل آنا شروع ہوجاتے ہیں کہ میں کس مصیبت میں پھنس گیاہوں ۔ ایسے تین سو روپے دینے سے جو دل کی ناخوشی کے ساتھ دیئے جائیں ،سو روپے دینا بہتر ہے کہ آدمی باقاعدگی سے بھیجتا بھی رہے اور اس پر کسی طرح کی پریشانی بھی لاحق نہ ہو۔
والد صاحب عمر کے آخری سالوں میں میرے پاس رہے۔ روز نامہ تجارت کے لئے اداریہ وہی لکھتے تھے پھر جب ہم نے 43 ریٹی گن روڈ پر خواجہ محمد طفیل( مرحوم) ایس پی کرائمزبرانچ کی کوٹھی میں تجارت پرنٹرز کے نام سے اپنا پریس لگایا تو انہوںنے ہی پریس کا کام سنبھالا مگر وہ اس کام سے خوش نہیں تھے۔ ان کا خیال تھا کہ وہ کوشش کے باوجود وعدے کے مطابق کام دینے سے قاصر رہتے ہیں باوجود اس کے کہ میں پارٹی سے کام دینے کا وعدہ متعلقہ عملے کے مشورے سے کرتا ہوں لیکن اس کے باوجود کوئی نہ کوئی مشکل آن پڑتی ہے اور وعدہ پورا نہیں ہوتا ۔ پھر ان کا یہ بھی خیال تھا کہ مجھے پریس لگانے کے بجائے پریس کے لئے کوئی جگہ پہلے تعمیر کرنی چاہئے تھی کیونکہ پُورا مہینہ کام کرنے سے پریس میں جو منافع ہوتا ہے وہ عمارت کے کرائے میں چلا جاتا ہے۔ والد صاحب اپنی زندگی کی ابتدا سے ہی صبح اور شام کی سیر کے عادی تھے۔ وہ مجھے بھی اس کی نصیحت کرتے رہتے تھے مگر میں ان کی یہ خواہش کبھی پوری نہیں کرسکا جس کی سزا مختلف عوارض کی صورت میں اب بھگت بھی رہا ہوں۔(جاری ہے)
