دوحہ: آرٹیفیشل انٹیلیجنس (اے آئی) نے دنیا میں آسانیاں پیدا کی ہیں اور اب ماہرین تنازعات کے حل کے لیے ہونے والے پیچیدہ انسانی طریقہ کار کے متبادل کے طور پر استعمال کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔
تنازعات کے حل کے لیے مذاکرات میں سفارت کار یا ثالثی کرنے والے جہاں ایک دوسرے پر حاوی ہونے کے لیے مختلف طریقے آزماتے ہیں، آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنا، مخالف فریق پر رعب جمانا اور اپنے تاثرات چھپانے کے لیے مختلف حربے استعمال کیے جاتے ہیں وہی مذاکرات کو خفیہ رکھنے پر زور دیا جاتا ہے۔
اب ماہرین اے آئی پر انحصار کرتے ہوئے تنازعات کے حل میں مختلف پہلو آزما رہے ہیں، جو نہ صرف ڈرامائی ہیں بلکہ پیچیدہ معاملات میں اے آئی کا عمل دخل ممکن بنایا جا رہا ہے۔
الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق تنازعات اور دیگر جنگ زدہ علاقوں میں اے آئی کا استعمال کرنے والی نجی کمپنی حالا سسٹم کے ڈائریکٹر پروگرام سما الحمدانی کا کہنا تھا کہ ٹیکنالوجی میں جدت امن اور ثالثی کے محاذ میں انقلاب برپا کر رہی ہے۔
الحمدانی نے کہا کہ ہم ایک ایسے دور میں ہیں جہاں اے آئی ثالث کاروں کو قابلیت اور معلومات سے بھرپور دنیا سے روشناس کروا رہا ہے۔
قطر کے دارالحکومت دوحہ میں 26 فروری سے 29 فروری تک 4 روزہ ویب کانفرنس کا انعقاد ہوا جہاں ریسرچرز نے مختلف آئیڈیاز پیش کیے اور الحمدانی بھی ان محققین میں سے ایک تھے، جنہوں نے تنازعات کے حل کے لیے اے آئی کے استعمال کی طرف توجہ مرکوز کرائی۔
کانفرنس میں ماہرین نے کہا کہ پیچیدہ سفارت کاری میں ڈیجیٹل کردار مؤثر ثابت ہوچکا ہے، کووڈ-19 کے عروج کے موقع پر جہاں ثالثی کرنے والے سفری پابندیوں کی وجہ سے براہ راست اجلاس میں شرکت نہیں کرپاتے ہیں تو ٹیکنالوجی نے سفارتی اجلاس ممکن بنایا۔
ماہرین کا خیال ہے کہ تنازعات کے مؤثر حل کے لیے نسلوں سے بند دروازوں کے پیچھے فیصلے کرنا کا نظام رائج ہے لیکن اب ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز اس کے مقابلے میں زیادہ جامع پروگرام کی راہ ہموار کرسکتی ہیں۔