سیول: جنوبی کوریا دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں شرح پیدائش ریکارڈ کم ہے اور آئندہ برسوں میں آبادی کے عدم توازن کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے لیکن جنوبی کوریا میں شرح پیدائش میں کمی کی کیا وجہ ہے اور شادی شدہ خواتین بچے پیدا کرنے کے بجائے کیریئر پر فوقیت کیوں دیتی ہیں؟۔
برطانوی نشریاتی ادارہ (بی بی سی) نے اس موضوع پر ایک رپورٹ میں بتایا کہ جنوبی کوریا کے دارالحکومت سیول کے مضافات میں رہنے والی خاتون اور ان کے دوستوں کے حوالے سے کہانی کے بارے میں بتایا کہ نہ تو وہ خاتون اور نہ ان کی دیگر دوست خواتین بچے پیدا کرنے کی منصوبہ بندی کر ہی ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ وہ اس فروغ پاتی کمیونٹی کا حصہ بن رہی ہیں جو خواتین بچے پیدا نہیں کرنا چاہتی ہیں۔
دنیا بھر میں ترقی یافتہ ممالک میں شرح پیدائش میں کمی کا رجحان پایا جاتا ہے لیکن جنوبی کوریا میں یہ رجحان انتہائی خطرناک صورت حال اختیار کر گیا ہے اور اسی کے لیے حکومت نے اقدامات کیے ہیں۔
حکومت نے بچے پیدا کرنے والے شادہ شدہ جوڑوں کو نقد رقم دینے، ہاوسنگ اور ٹیکسز کی مد میں سبسڈیز کی سہولیات فراہم کر دی ہیں، ان کے ہسپتالوں کے بل اور دیگر علاج بھی سرکار نے ذمہ لیا ہے تاہم یہ سہولت صرف شادہ شدہ جوڑوں کے لیے ہے۔
جنوبی کوریا کی حکومت کے یہ اقدامات کارگر ثابت نہیں ہوئے، اس لیے نمایاں سیاسی رہنماؤں اور معاشرے پر اثر رکھنے والی شخصیات کو مزید تخلیقی پروگرام ترتیب دینے ہوں گے جیسا کہ عمر 30 سال تک پہنچنے تک 3 بچے پیدا کرنے والے مردوں کو فوج میں خدمات انجام دینے سے استثنیٰ حاصل ہوگا۔
خواتین کا کہنا ہے کہ وہ معاش کے سلسلے میں اس قدر منہمک ہیں کہ ان کا مصروف شیڈول بچے پالنے کی اجازت نہیں دیتا کیونکہ دفتر سے گھر پہنچ کر رات کو سونے پہلے گھر کی صفائی اور ایکسرسائز کا موقع بمشکل مل جاتا ہے اور معاشرے میں ایسی خواتین کی زیادہ قدر نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ مجھے اپنے کام سے بہت لگاؤ ہے، اس سے مجھے زیادہ تسکین ملتی ہے لیکن کوریا میں کام کرنا مشکل ہے کیونکہ آپ کام اس گنجلک چکر میں پھنسے ہوتے ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ پالیسی ساز نوجوانوں خاص طور پر خواتین پر الزام عائد کرتے ہیں وہ اپنی ضروریات پر توجہ نہیں دیتے اور ملک بھر میں خواتین کو بچے پیدا نہ کرنے کے ان کے فیصلوں پر سمجھانے کی کوشش کی ہے۔
ملازمت پیشہ ایک 28 سالہ خاتون نے بتایا کہ اس نے ایسی خواتین کو دیکھا ہے جنہیں بچے پیدا کرنے کے بعد ترقی دینے کی ترغیب دے کر جاب چھوڑنے پر مجبور کیا گیا اور یہی بات یہ فیصلہ کرنے کے لیے کافی ہے کہ بچے پیدا نہ کیے جائیں۔
واضح رہے کہ جنوبی کوریا میں بچے کی پیدائش کے بعد 8 سال کے اندر خواتین اور مرد دونوں کو ایک سال چھٹی کی اجازت ہے لیکن 2022 میں صرف 7 فیصد مردوں نے یہ سہولت حاصل کی جبکہ خواتین میں یہ شرح 70 فیصد رہی۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ کوریا کی خواتین آرگنائزیشن فار اکنامک کوآپریشن اینڈ ڈیولپمنٹ کے رکن ممالک کی سب سے زیادہ تعلیم یافتہ ہیں لیکن اس کے باوجود نتخواہوں میں واضح صنفی امتیاز ہے اور مردوں کے مقابلے میں خواتین بہت بڑی تعداد کام سے باہر ہے۔
محققین کا کہنا ہے کہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ انہیں کیریئر یا خاندان بنانے پر مجبور کیا جاتا ہے اور وہ کیریئر کا انتخاب کر رہی ہیں، جس میں اضافہ ہو رہا ہے۔
ایک اور شادی شدہ خاتون نے بتایا کہ بچے پیدا کرنے کے بعد ماؤں کو پہلے دو سال پورا وقت بچے کو دینا ہوتا ہے جو مجھے بہت پریشان کردے گا حالانکہ وہ ان کے میاں چاہتے ہیں کہ ان کا بچہ ہو۔