اسلام آباد: ایک آزاد تھنک ٹینک نے اسٹیٹ بینک پر الزام لگایا ہے کہ وہ وفاقی حکومت کو بالواسطہ قرضے فراہم کررہا ہے، جس سے آئی ایم ایف کی سفارشات پر اسٹیٹ بینک کے قوانین میں کی گئی تبدیلیاں عملی طور پر غیر موثر ہوگئی ہیں۔
پالیسی ریسرچ انسٹیٹیوٹ آف مارکیٹ اکانومی (PRIME) نامی تھنک ٹینک نے پاکستان اکنامک فریڈم آڈٹ: دی سائونڈ منی نامی اپنی رپورٹ میں اسٹیٹ بینک اور وزارت خزانہ کے گٹھ جوڑ کے منفی اثرات پر روشنی ڈالی ہے، جس سے افراط زر بلند ہوئی اور قرضے بڑھے ہیں، اگر چہ اسٹیٹ بینک پاکستان کے ایکٹ میں ترمیم سے اسٹیٹ بینک کی حکومت کو قرض فراہم کرنے کی صلاحیت محدود ہوگئی ہے، لیکن اسٹیٹ بینک کی جانب سے مالیاتی مداخلت کا سلسلہ جاری ہے، اسٹیٹ بینک نے تجارتی بینکوں کو ضروری لیکویڈیٹی فراہم کی ہے، جو کہ انھوں نے حکومت کو فراہم کردی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسٹیٹ بینک نے اوپن مارکیٹ آپریشنز کے ذریعے شیڈولڈ بینکوں کو لیکویڈیٹی فراہم کرکے انھیں حکومت کو قرض فراہم کرنے کے قابل بنایا ہے، رپورٹ میں بینکنگ انڈسٹری کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ رواں ماہ کے پہلے ہفتے کے دوران اسٹیٹ بینک نے 10.3 ہزار ارب روپے اوپن مارکیٹ آپریشن کے ذریعے تجارتی بینکوں کو فراہم کیے ہیں، جو کہ بعد ازاں حکومت تک پہنچے ہیں۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ مہنگائی کے خاتمے کیلیے پالیسی ریٹ مقرر کرنا، پھر اسی دوران شیڈولڈ بینکوں کے ذریعے حکومت کو قرض فراہم کرکے روپے کی سپلائی بڑھانا غیر پیداواری ہے، قرض فراہمی پر پابندی سے کرنسی سپلائی کم کرنے میں مدد تو نہیں ملی، البتہ اس طرح حکومت کی سودی ادائیگیوں میں اضافہ ہوا ہے، اسٹیٹ بینک نوٹ چھاپ کر تجارتی بینکوں کو دے رہا ہے، اور تجارتی بینک یہ نوٹ بلند شرح سود پر حکومت کو دے رہے ہیں۔