عدلیہ میں مداخلت کا ثبوت ہے تو پیش کریں، ورنہ ابہام بڑھ رہا ہے، فیصل واوڈا

اسلام آباد: سینیٹر فیصل واوڈا نے کہا ہے کہ عدلیہ میں مداخلت کا ثبوت ہے تو پیش کریں، ورنہ ابہام بڑھ رہا ہے۔

نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے سینیٹر فیصل واوڈا نے کہا کہ چھٹی کے دن جسٹس بابر ستار کی جانب سے پریس ریلیز آتی ہے، 30 اپریل کو میں نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کو خط لکھا، کوریئر بھی کیا، خط رجسٹرار آفس میں موصول کروایا ، جج بننے سے پہلے جسٹس ستار نے اس وقت کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کو رپورٹ کیا۔ اس کی کوئی قانونی چیز ہو گی جو ہمیں نہیں مل رہی ، آرٹیکل 19 اے کے تحت ہر پاکستانی انفارمیشن لے سکتا ہے، اب ابہام بڑھ رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایک سال پہلے کیوں نہیں بتایا ۔ ایک سال بعد آپ نے پھر الزام لگایا ۔ اب آپ کو شواہد دینا پڑیں گے۔ میں کہہ دوں کہ جج نے کہہ دیا کہ قتل کر دو، کوئی ثبوت تو نہیں ہے ۔ کوڈ آف کنڈکٹ کے تحت ججز کو اللہ سے ڈرنے والا، اچھی زبان ، محتاط اور الزامات سے دور دور تک تعلق نہیں ہونا چاہیے۔ جواب نہیں آ رہا، اس سے ابہام بڑھ رہا ہے۔
فیصل واوڈا نے کہا کہ شواہد یا ثبوت کے بغیر عدالت نہیں کارروائی کرتی ۔ اسی حساب سے اگر مداخلت کا کوئی ثبوت ہے تو ہمیں دے دیں ۔ اگر ریکارڈ کا حصہ نہیں تو پھر پریشانی ہو گی۔ اطہر من اللہ بہت اصول پسند آدمی ہیں ۔ وہ نہ حماقت کرتے ہیں نہ کرنے دیں گے ۔ میرا گمان ہے جسٹس من اللہ کسی سے ڈرتے نہیں۔ نہ کسی سے ملتے ہیں۔ وہ کسی سیاسی جماعت کے نمائندے سے بھی نہیں ملتے۔

سابق وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ پندرہ دن گزر گئے، ہمیں ریکارڈ نہیں مل رہا ۔ پاکستان کسی کے باپ کا نہیں ہے ۔ جو میرے لیے ہو گا وہ سب کے لیے ہو گا ۔ آپ نے سوشل میڈیا پر نوٹس لیا ، آپ کو دیگر معاملات، کراچی میں ریپ کا نوٹس لینا چاہیے تھا ۔ کل پنجاب میں ریپ کے بعد قتل ہونے والوں کا بھی نوٹس لینا چاہیے تھا ۔ جسٹس منصور علی شاہ نے خود احتسابی کی بات کی ہے تو ہمیں خوش ہونا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ اگر شواہد نہیں ہیں، سب زبانی ہے تو پھر مسئلہ ہے ۔ سستی روٹی پر حکم امتناع، نسلہ ٹاور کی شنوائی نہیں ۔ ریکوڈک پر اربوں ڈالر کا نقصان ہوا، کس قانون کے تحت زرداری کو 14 سال جیل ہوئی؟۔ بلیک لا ڈکشنری کے تحت تنخواہ نہ لینے پر نواز شریف کو سزا دی ، پی آئی اے اسٹے آرڈر، سستی روٹی اسٹے آرڈر کب تک ایسا چلتا رہے گا۔ سیاست دان اگر دہری شہریت نہیں رکھ سکتا تو جج کیسے دہری شہریت کے ساتھ بیٹھے ہیں؟۔

سینیٹر فیصل واوڈا نے کہا کہ پاکستان اور پاکستانیوں کی قسمت کے فیصلے کر رہے ہیں ۔ 90 فیصد ادارہ رہ گیا ہے جس میں ڈسپلن باقی ہے۔ ہمارے لیے پاکستان اہم ہے۔ بارڈر پر فوجی اور پولیس والے جانیں دیں گے، کہاں آئین میں لکھا ہے؟۔ آئین اور قانون میں کہاں لکھا ہے کہ جنہوں نے قربانیاں دیں ان کا تمسخر اڑایا جائے۔

فیصل واوڈا نے کہا کہ امید ہے کہ جواب جلد آئے گا ۔ محاذ آرائی سے دُور رہیں ۔ ان کاموں کا کوئی فائدہ نہیں ۔ اپنی ذات نہیں سارے پاکستان کے لیے سوشل میڈیا پر پابندی لگائیں، صرف اپنے لیے نہیں ۔ میری پگڑیاں اچھالی گئیں، اب پاکستان کی جو پگڑی اچھالے گا ان کی پگڑیوں کا فٹ بال بنائیں گے۔ اداروں کو نشانہ بنانا بند کریں کافی ہو گیا ۔ فوج نہیں ہو گی تو پاکستان بھی نہیں بچے گا ۔ شہادتوں کی وجہ سے ہم یہاں بیٹھے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ضمانتیں آپ دیتے ہیں۔ بہت کچھ جانتا ہوں، بہت کچھ سمجھتا ہوں، راز ہیں ،شواہد ہیں اور میرا ہوم ورک ہے۔ میرا گمان ہے کہ اطہر من اللہ شہ سرخیوں کے لیے فیصلہ نہیں کرتے۔ رات کے اندھیروں میں کسی سے نہیں ملتے ۔ اطہر من اللہ جیسے تاریخی جج سے ایسی غلطی نہیں ہو سکتی۔

سینیٹر فیصل واوڈا نے کہا کہ اگر جج بننے سے پہلے کا ہے اور ریکارڈ نہیں ہے تو پھر سوالات ہوں گے۔ سپریم جوڈیشل کونسل کو مداخلت کرنا ہو گی۔ مجھے اعتراض نہیں کہ وہ میڈیا پر تجزیہ دیتے تھے، دہری شہریت ہو تو مجھے کوئی ایشو نہیں ۔ اگر الزام لگانے والے کے پاس ثبوت نہیں تو اداروں پر الزام نہ لگائیں ۔ خدا کی قسم اٹھا کر کہتا ہوں کہ جسٹس منصور شاہ اور عائشہ احد کے سامنے بیٹھ کر آپ کا سینہ چوڑا ہو جاتا ہے ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں