اسلام آباد: پی ٹی آئی نے رؤف حسن پر حملے کی تحقیقات کےلیے جوڈیشل کمیشن بنانے کا مطالبہ کردیا۔
پی ٹی آئی کے سیکرٹری جنرل عمر ایوب،سیکرٹری اطلاعات رؤف حسن،اعظم سواتی،شوکت بسرا،خالد خورشید نے مشترکہ پریس کانفرنس کی۔
عمر ایوب نے کہا کہ پی ٹی آئی سیکرٹری انفارمیشن پر نجی چینل کے باہر قاتلانہ حملہ ہوا جو کہ پہلی بار نہیں ہوا، ایک روز پہلے بھی ان پر حملہ ہوا جس کو رپورٹ کیا جانا چاہیے تھا، مارنے والوں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی ، تیز دھار آلے سے ایک پوری سائیڈ چیر ڈالی، اللہ نے رؤف حسن کو دوسری زندگی دی ۔
انہوں نے کہا کہ اسلام آباد پولیس کی ایف آئی آر کو ہم مکمل طور پر مسترد کرتے ہیں، وہ کیس کو خراب کرنے کی کوشش کر رہی ہے، محرر سامنے آئے اس نے ایف آئی آر کس کے کہنے پر لکھی، ایف آئی آر میں دہشتگردی کی دفعات کا ذکر تک نہیں، ہم مطالبہ کرتے ہیں عدلیہ اس کیس پر فی الفور جوڈیشل کمیشن بنائے جو اس حملے کی تحقیقات کرائے، خدانخواستہ یہ وبا آگے پھیل سکتی ہے، اگر ہماری لیڈرشپ پر اس طرح کا حملہ پھر ہوا تو ملک بھر میں پرامن احتجاج کرینگے، پی ٹی آئی کے لوگوں کی گرفتاری کے لیے تو فیشل ریکنگنیشن (چہرے کی شناخت) ہوجاتی ہے، اس کیس میں ابھی تک ٹیکنالوجی کا استعمال کیوں نہیں کیا گیا؟
مرکزی سیکرٹری اطلاعات رؤف حسن پریس کانفرنس کرتے ہوئے آبدیدہ ہو گئے۔ انہوں نے کہا کہ پچھلے دو سال میں ہماری آوازوں کے ساتھ میڈیا کی آواز کو بھی مسخ کیا گیا، اداروں کی جس طرح تضحیک کی جارہی ہے وہ آپ کے سامنے ہے، جب سے عمران خان کی حکومت کو گرایا اس کے بعد پی ٹی آئی پر جو ظلم ہوئے اس کی مثال نہیں ملتی ، ہماری درخواست کے باوجود جوڈیشل کمیشن نہیں بنایا گیا، جمہوریت کے پیچھے ایک انفرادی ڈکٹیٹرشپ جاری ہے۔
انہوں نے کہا کہ میرے ساتھ جو ہوا وہ کچھ نہیں میرے ساتھیوں کے ساتھ بہت کچھ ہوا، تین دن پہلے بھی یہ لوگ میری طرف آئے، انہوں نے مجھے گالیاں اور دھمکیاں بھی دیں، حملہ آور کہتے رہے ہم آپ کے پیچھے ہیں، ان کا مقصد تھا میرا گلہ کاٹ دیں، حملہ آور خواجہ سرا نہیں تھے، جب انہوں نے مجھے پکڑا تو محسوس ہوا وہ اعلی تربیت یافتہ تھے، خواجہ سراؤں نے واقعے سے لاتعلقی ظاہر کردی ہے۔
انہوں نے زور دیا کہ میرا زخم ٹھیک ہوجائے گا شاید نظر بھی نہ آئے، مگر جو گھاؤ ریاست کے اوپر لگائے ہیں وہ مائل نہیں ہونگے، 1971 کے واقعات کو دہرایا جارہا ہے۔
رؤف حسن کا کہنا تھا کہ ریاست کو بند گلی میں دھکیل دیا گیا ہے، دو سال میں کوئی بھی بیانیہ بنانے میں یہ کامیاب نہ ہوسکے، فرد واحد کی خواش کو نافذ کرنے والے مکمل طور پر ناکام ہوئے، آپ ہمیں مار دیں ہم جھکیں گے نہیں، مجھے بتائیں کہاں آنا ہے میرے سینے میں گولی مار دیں، ہم کھڑے ہیں، آج نہیں تو کل ان کو اڈیالہ میں بیٹھے شخص سے بات کرنی ہوگی۔