اسلام آباد: آٹو انڈسٹری کی جانب سے حکومت کو آئندہ مالی سال 2024-25 کے وفاقی بجٹ میں استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد پر عائد ڈیوٹی و ٹیکس بڑھانے اور نان فائلرز کے لیے گاڑیوں کی خریداری پر مکمل پابندی عائد کرنے کی تجاویز دی گئی ہیں۔
علاوہ ازیں آٹو انڈسٹری نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے لیے استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد کا شفاف میکنزم یقینی بنایا جائے جس کے تحت بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو صرف ان کے خاندان کے استعمال کے لیے گاڑیوں کی درآمد کی اجازت مل سکے۔
آئندہ مالی سال کے لیے بجٹ تجاویز کے حوالے سے ایف بی آر اور وزارت تجارت و وزارت خزانہ کے حکام سے ملا قاتوں کے بعد پاکستان آٹو پارٹس مینوفیکچررز ایسوسی ایشن ( پاپام )کے چیئرمین کے ساتھ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انڈس موٹرز کمپنی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر(سی ای او) علی اصغر جمالی کا کہنا تھا کہ آٹوموبائل مینوفیکچررز و پارٹس مینوفیکچررز نے حکومت کو آئندہ مالی سال کے وفاقی بجٹ کے لیے تجاویز دیدی ہیں۔
آٹومینوفیکچررز کی تجاویز کو بجٹ میں شامل کرنے سے آئندہ مالی سال کے وفاقی بجٹ میں آٹو موبائل سیکٹر سے حکومت کو 60 سے 70 ارب روپے کا اضافی ٹیکس ریونیو حاصل ہوسکے گا۔ انہوں نے توقع ظاہر کی ہے کہ موجودہ حکومت آئندہ مالی سال کے بجٹ میں مقامی آٹو انڈسٹری کو بحران سے نکالنے اور سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کرنے کے لیے معاون اقدامات کرے گی۔
انڈس موٹرز کمپنی کے چیف ایگزیکٹیو علی اصغر جمالی نے مزید کہا کہ مقامی آٹو انڈسٹری نے وفاقی حکومت سے آئندہ بجٹ میں استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد پر ڈیوٹی اور ٹیکسز میں اضافے کی درخواست کی ہے، تاکہ مستحکم شرح مبادلہ اور شرح سود میں متوقع کمی سے معاشی حالات میں ہونے والی ابتدائی بہتری کا مقامی آٹو انڈسٹری کو فائدہ پہنچایا جاسکے۔
انہوں نے کہا کہ بڑے پیمانے پر استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد کی وجہ سے نئے سال کے آغاز سے وابستہ توقعات کے برعکس سال 2024 میں بھی پاکستان کی آٹو انڈسٹری کے لیے کسی بہتر تبدیلی کا آغاز نہیں ہوسکا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ بات اہم ہے کہ فروری 2024میں گاڑیوں کی فروخت میں 28فیصد کی بہتری دیکھنے میں آئی اور فروری 2023 کی 3642 یونٹس کی فروخت کے مقابلے میں فروری 2024 کی فروخت 7953یونٹس رہی۔
دوسری جانب استعمال شدہ کاروں کی درآمدات میں گزشتہ سال کی اسی مدت کے مقابلے صرف فروری میں 711 فیصد (3,213 یونٹس کے مقابلے میں 396) اضافہ ریکارڈ کیا گیاہے۔ اگر یہ صورتحال برقرار رہی تو پرزہ جات فراہم کرنے والی صنعت اپنا کاروبار اس غیریقینی کاروباری ماحول کی وجہ سے بند کرنے پر مجبور ہو جائے گی جب کہ گاڑیاں تیار کرنے والے پلانٹس گزشتہ کئی ماہ سے 25سے 30فیصد پیداواری گنجائش پر چلا رہے ہیں۔
آٹو انڈسٹری کی طلب پوری کرنے کے لیے وینڈرز انڈسٹری کی اپنی پیداواری گنجائش بڑھانے میں کی گئی بھاری سرمایہ کاری بھی بروئے کار نہیں لائی جارہی اورصرف گاڑیوں کے تقریباً ایک لاکھ یونٹس پر پرزے تیار کر رہی ہے۔ پاپام کے چیئرمین نے بھی اپنے حالیہ بیان میں بتایا کہ لوکل آٹو انڈسٹری نے 2.5ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے جب کہ مالی سال 2022میں قومی خزانے میں 400ارب روپے کے محصولات جمع کرائے اور براہ راست و بالواسطہ روزگار کے 25 لاکھ مواقع مہیا کیے، جو اس بحرانی کیفیت کی وجہ سے خطرے میں پڑے ہوئے ہیں۔
جولائی 2023 تا اپریل 2024 استعمال شدہ گاڑیوں کی اوسطاً ماہانہ درآمد 3068یونٹس رہی، جس سے مقامی صنعت کا کاروبار بری طرح متاثر ہوا ہے۔ اس کا نتیجہ بے روزگاری اور ٹیکسوں میں معاشی نقصان کی شکل میں نکل سکتا ہے۔ استعمال شدہ کاروں سے متعلق غیر ملکی ادائیگیوں کے لیے غیر قانونی مالیاتی چینلز کا استعمال جاری ہے۔
دوسری طرف مقامی آٹو انڈسٹری ملک میں پرزے لانے کے لیے تمام قانونی ذرائع استعمال کرتی ہے، جو مقامی صنعت کے لیے بدستور ایک بڑا چیلنج بنا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد کے لیے ایک شفاف میکنزم کو یقینی بنانا چاہیے، جس کے تحت بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو صرف ان کے خاندان کے استعمال کے لیے گاڑیوں کی درآمد کی اجازت مل سکے۔
انہوں نے مزید کہا کہ استعمال شدہ گاڑیوں کی بڑے پیمانے پر درآمدات نے ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر کو بھی نقصان پہنچایا اور روپے کی قدر میں کمی کے ساتھ ساتھ معاشی غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے مستقبل کی سرمایہ کاری کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ٹویوٹا کی نئی متعارف کرائی گئی ہائبرڈ الیکٹرک وہیکل – ٹویوٹا کرولا کراس کی پہلی سہ ماہی کی کارکردگی تسلی بخش رہی ہے۔ ٹویوٹا کرولا کراس اپنی کٹیگری میں مقامی پرزہ جات کے بلند ترین تناسب کی حامل گاڑی ہے، جس میں مقامی پرزوں کا تناسب 50 فیصد سے زیادہ ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ تقریباً 13 برانڈز مجموعی طور پر 40 سے زیادہ ماڈلز مقامی طور پر تیار کر رہے ہیں، جن کی مشترکہ پیداواری صلاحیت سالانہ 5 لاکھ یونٹس پیدا کرنے کی ہے، لیکن استعمال شدہ درآمدی کاریں مقامی آٹو انڈسٹری کی بقا کے لیے چیلنجز پیدا کر رہی ہیں۔