عوام کو مایوس نہیں دیکھ سکتے، مطالبات کی منظوری کیلیے بہت آپشنز ہیں، حافظ نعیم

اسلام آباد: امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا ہے کہ ہم عوام کو مایوس نہیں دیکھ سکتے، ہمارے پاس مطالبات کی منظوری کے لیے بہت آپشنز ہیں۔

وفاقی دارالحکومت میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمٰن کا کہنا تھا کہ ہم 40 دن سڑکوں پر رہیں گے لیکن ہم یہ نہیں چاہتے کہ عوام مایوس ہوں۔ حکومت سے مطالبات منظور کروانے کے لیے متعدد آپشنز موجود ہیں، یہ جماعت اسلامی کا نہیں بلکہ ملک کے 25 کروڑ عوام کا مسئلہ ہے۔ ہم تاجروں سے بھی مشاورت جاری رکھے ہوئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں امن و امان کی صورتحال بہت خراب ہے ، پنجاب میں بھی امن و امان کی صورتحال اچھی نہیں اور سندھ میں کچے کے ڈاکوؤں کا راج ہے ۔ ملک میں 74 فی صد لوگ اپنے اخراجات پورے نہیں کر پارہے جب کہ نوجوان سوچنے پر مجبور ہیں کہ ملک میں ہمارے لیے مواقع نہیں ہیں اور حکمرانوں کی شاہ خرچیاں جاری ہیں ۔

حافظ نعیم کا کہنا تھا کہ ایف بی آر میں کرپشن عروج پر ہے۔ 1300 ارب روپے کی کرپشن ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آمدن پر ٹیکس ہونا چاہیے، ٹیکس نیٹ میں اضافے پر کسی کو اعتراض نہیں، لیکن ریٹ بڑھایا جائے گا تو ایکسپورٹر کیسے کمپٹیشن میں آئیں گے؟

امیر جماعت نے کہا کہ حکومت کو نوجوانوں کی نفسیات سمجھنی چاہیے۔ یہاں کوئی آگے نہیں بڑھ سکتا، کوئی مستقبل نہیں بنا سکتا۔ کوہاٹ میں گیس کی معقول ایکسپلوریشن ہوئی ہے۔ اگر حکمران بروقت درست اقدامات کرتے تو گیس کی لوڈشیڈنگ کا سامنا نہ ہوتا۔ ایران گیس پائپ لائن پر کام ہوا تو ہماری گیس کی ضرورت پوری ہوجائے گی۔ پاک ایران گیس پائپ لائن ہماری فوری ضرورت ہے۔ گیس ایکسپلوریشن کا پراسس تیز رفتاری سے جاری رکھنا چاہیے۔

انہوں نے مزید کہا کہ خطے میں بے امنی ہے، اس کو روکنا ہوگا۔ پاکستان کو اچھے طریقے سے ہینڈل کرنا چاہیے۔ حکومت ایک بار پھر کوشش کر رہی ہے اور اسلام آباد کے بلدیاتی انتخابات کے معاملے میں تاخیر ی حربے استعمال کیے جا رہے ہیں۔ کے پی میں بلدیاتی اداروں کا بیڑہ غرق ہے ۔ پی پی اور ن لیگ صرف پروموشن پر لگی ہوئی ہیں۔ پنجاب اور اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات نہیں ہوئے ۔ سندھ میں ہم نے لڑ لڑ کر بلدیاتی انتخابات کروائے ہیں ۔ سندھ میں بلدیاتی انتخابات پر شب خون مارا گیا ہے۔

حافظ نعیم نے کہا کہ بارڈر پر اسمگلنگ روکنے کے لیے چیف آف آرمی اسٹاف اپنا کردار ادا کریں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں