اسلام آباد: سپریم کورٹ نے مبارک ثانی کیس میں پنجاب حکومت کی نظرثانی درخواست پر مفتی تقی عثمانی، مولانا فضل الرحمان اور دیگر علما کی معاونت حاصل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
زرائع کے مطابق سپریم کورٹ میں مبارک ثانی کیس کے فیصلے کے خلاف پنجاب حکومت کی جانب سے دائر کردہ نظرثانی اپیل پر سماعت شروع ہوگئی۔ ترکیہ میں موجود مفتی تقی عثمانی وڈیو لنک کے ذریعے آن لائن شریک ہیں جب کہ مولانا فضل الرحمان، اٹارنی جنرل اور دیگر عدالت میں موجود ہیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ کیس کی سماعت کررہا ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ مبارک ثانی کیس کی نظرثانی میں جب آپ نے فیصلہ دیا تو پارلیمنٹ اور علما کرام نے وفاقی حکومت سے رابطہ کیا، کہا گیا کہ حکومت کے ذریعے سپریم کورٹ سے رجوع کیا جائے، اسپیکر قومی اسمبلی کی طرف سے خط ملا تھا اور وزیراعظم کی جانب سے بھی ہدایات کی گئیں تھی، ظاہر ہے دوسری نظرثانی تو نہیں ہوسکتی،اس لے ضابطہ دیوانی کے تحت آپ کے سامنے درخواست آئی ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت کی جانب سے فریقین کو نوٹسز جاری کردیے گئے تو فریقین عدالت میں اور ویڈیو لنک کے ذریعے پیش ہوئے ہیں، کیونکہ معاملہ مذہبی ہے تو علمائے کرام کو سن لیا جائے۔
میری ہر نماز کے بعد ایک ہی دعا ہوتی ہے کہ کوئی غلط فیصلہ نہ ہو، چیف جسٹس
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کہنا تو نہیں چاہیے لیکن مجبور ہوں، میں ہر نماز میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ مجھ سے کوئی غلط فیصلہ نہ کروائے، انسان اپنے قول فعل سے پہچانا جاتا ہے، پارلیمان کی بات سر آنکھوں پر ہے، آئین کی 50 ویں سالگرہ پر میں خود پارلیمنٹ گیا۔
سپریم کورٹ نے عدالت میں موجود مولانا فضل الرحمان، مفتی شیر محمد اور دیگر موجود علماء سے معاونت لینے کا فیصلہ کیا، ابو الخیرمحمد زبیر جماعت اسلامی کے فرید پراچہ بھی عدالت کی معاونت کریں گے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے مفتی تقی عثمانی سے بھی معاونت کا کہا تھا وہ ترکیہ میں ہیں، ہم نے مفتی منیب الرحمان کو آنے کی زحمت دی وہ نہیں آئے۔ اس پر مفتی منیب کے نمائندے نے کہا کہ مجھے مفتی منیب الرحمان نے بھیجا ہے۔