اسلام آباد: سپریم کورٹ نے بین الاقوامی اسلامک یونیورسٹی کے نائب صدر محمد سرور کی تعیناتی کو غیرقانونی قرار دے دیا جبکہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے حکام نے بتایا کہ یونیورسٹی کو حکومت کی جانب سے سب سے زیادہ گرانٹ ملتی ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے بین الاقوامی اسلامک یونیورسٹی کے حوالے سے کی سماعت کی جہاں ہائر ایجوکیشن کے عہدیداروں نے بتایا کہ اسلامک یونیورسٹی کو وفاقی حکومت سب سے زیادہ گرانٹ دیتی ہے۔
حکام ہائر ایجوکیشن کمیشن نے بتایا کہ اسلامک یونیورسٹی کو سالانہ 2.1 ارب روپے سے زائد گرانٹ دی جاتی ہے، اسی طرح سعودی عرب اور کویت سے 600 ملین کی گرانٹ آتی ہے لیکن یونیورسٹی کا مجموعی خسارہ 4ارب 17کروڑ روپے ہے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل آف پاکستان نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ نائب صدر اسلامک یونیورسٹی محمد سرور کو بورڈ آف گورنر کی منظوری کے بغیر غیر قانونی طور پر تعینات کیا گیا ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ڈائریکٹر ایچ آر اسلامک یونیورسٹی عتیق الرحمان سے پوچھا کہ محمد سرور کو کیسے تعینات کیا گیا تھا، جس پر انہوں نے بتایا کہ محمد سرور نے مجھے کہا کہ نائب صدر یونیورسٹی تعینات کر دیں۔
سپریم کورٹ نے اسلامک یونیورسٹی کے نائب صدر محمد سرور کی تقرری کو غیر قانونی قرار دے دیا اور سیکریٹری تعلیم نے اسلامک یونیورسٹی کا آڈیٹر جنرل کے ذریعے آڈٹ کرانے کی یقین دہانی کرادی۔
عدالت نے اسلامک یونیورسٹی کی ریکٹر ثمینہ ملک کا معاملہ وفاقی حکومت پر چھوڑ دیا اور کہا کہ وفاقی حکومت فیصلہ کرے کہ ثمینہ ملک کو ریکٹر کے عہدے پر رکھنا ہے یا نہیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے کیس کی مزید سماعت غیرمعینہ مدت تک ملتوی کر دی۔