اسلام آباد: کمرشل بینکوں کی جانب سے مہنگے ڈالر بیچ کر 65 ارب روپے کمانے سے متعلق اسٹیٹ بینک سے تفصیلی رپورٹ طلب کر لی گئی۔
سینیٹ کی اقتصادی امور کمیٹی اجلاس میں چیئرمین کمیٹی سیف اللہ ابڑو نے کہا کہ 2022 میں اسحاق ڈار نے بیان دیا کہ بینکوں نے 65 ارب کمائے، یہ غریب عوام کا پیسہ ہے جو واپس آنا چاہیے۔ چیئرمین کمیٹی نے اقتصادی امور حکام کو ہدایت کی کہ یہ پیسے ان بینکوں سے ریکور کرائیں۔
سینیٹر کامران مرتضیٰ نے سوال کیا کہ کیا مہنگے ڈالر بیچنے پر کسی کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا تھا۔ اسٹیٹ بینک حکام نے بتایا کہ بینکوں کی جانب سے ریگولیٹری خلاف ورزیاں ہوئی تھیں اور ملوث کمرشل بینکوں کے خلاف پینل ایکشن لیا گیا تھا، ریگولیٹری خلاف ورزیوں پر 1.4 ارب روپے کا جرمانہ لگا تھا۔
سینیٹر کامران مرتضیٰ نے کہا کہ کمرشل بینکوں نے مہنگے ڈالر بیچ کر 65 ارب روپے کمائے لیکن 65 ارب پر بینکوں کو صرف 1.4 جرمانہ کیا گیا۔
چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ رپورٹ آئے گی تو یہاں ہم بڑی اسکرین پر لگائیں گے اور رپورٹ کی روشنی میں ملوث بینکوں کے خلاف کاروائی کریں گے۔
اجلاس میں آئی ایم ایف قرض کے استعمال کا معاملہ بھی زیر بحث آیا۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ہم بار بار آئی ایم ایف کے پاس قرض کے لیے جا رہے ہیں، یہ بتایا جائے کہ آئی ایم ایف سے لیا گیا قرض کہاں کہاں استعمال ہوتا ہے۔
اسٹیٹ بینک حکام نے بتایا کہ آئی ایم ایف قرض معیشت کو چلانے کے لیے استعمال ہوتا ہے، آئی ایم ایف قرض صرف بیلنس آف پیمنٹ کے لیے استعمال ہو سکتا ہے، بیلنس آف پیمنٹ کے علاوہ کسی اور چیز پر قرض استعمال نہیں کر سکتے اور ہم تب ہی آئی ایم ایف کے پاس جاتے ہیں جب بیلنس آف پیمنٹ کی ضروت ہو، ضرورت کے بغیر آئی ایم ایف کے پاس نہیں جایا جا سکتا۔
اسٹیٹ بینک حکام نے مزید بتایاکہ قرض بیلنس آف ٹریڈ میں ڈیبٹ سروسنگ کے لیے استعمال ہوتا ہے، آئی ایم ایف کے انفلوز صرف سپورٹ کے لیے آتے ہیں، سوائے اسٹیٹ بینک کے آئی ایم ایف فنڈ کوئی اور استعمال نہیں کر سکتا، آئی ایم ایف کا قرض صرف اسٹیٹ بینک کو ملتا ہے حکومت کو نہیں.