پاکستان کے نامور قوال عزیز میاں قوال کو اپنے مداحوں سے بچھڑے 24 برس بیت گئے۔
عزیز میاں نے قوالی کو صرف گائیکی ہی نہیں بلکہ ایک پیغام بنایا، ان کے اشعار میں فلسفہ، فکر اور جذبے کی گہرائی تھی جو عام انسان کی زندگی کو چھوتی تھی اور ان کی آواز مداحوں کے کانوں میں رس گھولتی تھی۔
یہ وہ آواز تھی جس نے جذبوں کو الفاظ کا لباس پہنایا، صوفیائے کرام کے کلام کو دلوں کی دھڑکن بنایا، اور قوالی کی روایت کو آسمان کی بلندیوں تک پہنچایا یہی وجہ ہے کہ آج بھی ان کی قوالیاں اتنی ہی مقبول ہیں۔
عزیز میاں قوال، جن کا اصل نام عبدالعزیز تھا، 17 اپریل 1942 کو دہلی میں پیدا ہوئے۔ مگر ان کی پہچان کا سورج لاہور کی سرزمین پر چمکا، جہاں انہوں نے قوالی کو ایک نئی جہت عطا کی۔
عزیز میاں کی قوالی میں الفاظ کی شدت، جذبے کی گہرائی اور حقیقت کا آئینہ جھلکتا تھا۔ ان کی قوالیاں ‘میری توبہ’، ‘میں شرابی’ اور ‘تیری صورت’ نے دلوں کو جوڑا اور روحوں کو جھنجھوڑا جنہیں آج بھی بےحد پسند کیا جاتا ہے۔
عزیز میاں قوال نے اپنے فن کے ذریعے نہ صرف قوالی کی قدیم روایت کو زندہ رکھا بلکہ اسے نئے زمانے کے ساتھ ہم آہنگ بھی کیا۔ ان کی گائیکی میں وہ جوش و جنون تھا جو سامعین کے دلوں میں اتر جاتا تھا۔
ان کا کلام ایک آئینہ تھا، جس میں زندگی کی تلخ حقیقتیں، انسان کے گناہوں کی معافی کی التجا، اور خدا سے قربت کی آرزو نظر آتی تھی۔ انہوں نے قوالی کو وہ مقام دیا جہاں جذبے اور فن ایک ہو جاتے ہیں۔
6 دسمبر 2000 کو عزیز میاں قوال دنیا کو الوداع کہہ کر اپنے مداحوں سے جدا ہوگئے مگر ان کا فن، ان کی آواز، اور ان کا پیغام ہمیشہ کے لیے امر ہو گیا۔ وہ صرف ایک قوال ہی نہیں، بلکہ ایک عہد تھے، جو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔