کشتی حادثہ: لیک آڈیو نے یونانی حکام کی لاپروائی کا پول کھول دیا

ایتھنز: یونان کے قریب 2023 میں پیش آنے والے المناک کشتی حادثے میں یونانی حکام کی لاپروائی کا بھانڈا پھوٹ گیا، جس میں 700 سے زائد تارکین وطن سوار تھے، جن میں اکثریت پاکستانیوں کی تھی۔

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی نیوز کی رپورٹ کے مطابق، ایک لیک شدہ آڈیو ریکارڈنگ نے انکشاف کیا ہے کہ یونانی ریسکیو حکام نے کشتی کے کپتان کو ہدایت دی تھی کہ وہ آنے والے جہاز کو بتائیں کہ سوار افراد یونان نہیں بلکہ اٹلی جانا چاہتے ہیں۔

یہ حادثہ 14 جون 2023 کو پیش آیا، جس میں 350 پاکستانیوں سمیت 500 سے زائد تارکین وطن ہلاک ہوگئے، جبکہ صرف 82 لاشیں برآمد کی جا سکیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق، یہ حادثہ جدید تاریخ کے بدترین کشتی حادثات میں شمار ہوتا ہے۔

آڈیو ریکارڈنگ کے مطابق 13 جون کو شام 6:50 بجے ایک ریسکیو افسر نے کشتی کے کپتان کو ہدایت دی کہ وہ قریب آنے والے بحری جہاز کو بتائیں کہ مسافر یونان نہیں جانا چاہتے جبکہ رات 10:10 پر یونانی حکام نے بحری جہاز کے کپتان سے کہا کہ وہ اپنی لاگ بک میں لکھ دیں کہ مسافر اٹلی جانا چاہتے ہیں۔

عینی شاہدین کے مطابق، کشتی اس وقت الٹی جب یونانی کوسٹ گارڈز نے اسے کھینچنے کے لیے رسی باندھنے کی کوشش کی۔ حادثے میں بچ جانے والے پاکستانی عثمان صدیق نے تصدیق کی کہ ایک ہیلی کاپٹر نے حادثے سے 12 گھنٹے قبل تصاویر لیں، لیکن مدد فراہم نہیں کی۔

عثمان صدیق، جو گجرات پولیس میں تعینات تھے، نے کہا: “ہم مدد کے لیے چیختے رہے، خاص طور پر خواتین اور بچے رو رہے تھے، لیکن یونانی حکام نے مدد نہیں کی اور رات 10 بجے ایک جہاز آیا اور ہماری کشتی کو کھینچنے کی کوشش کی، جس کے بعد وہ دائیں بائیں ہلنے لگی اور آخرکار ٹوٹ گئی۔”

رپورٹس کے مطابق، زندہ بچ جانے والے افراد پر دباؤ ڈالا گیا کہ وہ 9 مصریوں کو اسمگلرز کے طور پر شناخت کریں، جبکہ حکام کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے کشتی کو نہیں کھینچا کیونکہ مسافر خود یونان نہیں جانا چاہتے تھے۔

حادثے میں جاں بحق ہونے والے پاکستانیوں کی اکثریت کا تعلق گجرات، گوجرانوالہ، منڈی بہاالدین اور آزاد کشمیر سے تھا۔

یہ انکشافات یونانی حکام کے طرز عمل پر سوالیہ نشان کھڑا کرتے ہیں، جو اس سانحے کی ذمہ داری قبول کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں