دمشق: شام میں حکومتی فورسز اور بشار الاسد کے وفادار جنگجوؤں کے درمیان شدید جھڑپوں میں 70 سے زائد افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوگئے ہیں۔
انسانی حقوق کی تنظیم سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس (SOHR) کے مطابق، یہ تصادم شمالی ساحلی علاقے میں ہوا، جہاں حکومتی فورسز اور اسد کے حامی جنگجو آمنے سامنے آگئے۔
جمعرات کو لاذقیہ اور جبیلہ میں اسد کے حامی جنگجوؤں نے اچانک حکومتی چیک پوسٹوں اور فوجی ٹھکانوں پر حملہ کردیا، جس کے نتیجے میں 48 افراد ہلاک ہوئے۔ رپورٹس کے مطابق، یہ حملے اس وقت کے سب سے شدید حملوں میں سے ایک تھے جب سے بشار الاسد کی حکومت کا خاتمہ ہوا۔
شامی میڈیا کے مطابق، حکومت نے جوابی کارروائی میں جنگجوؤں کے ٹھکانوں پر فضائی حملے کیے اور ہیلی کاپٹر کے ذریعے کارروائی کرتے ہوئے کئی علاقوں پر بمباری کی۔
اس دوران شامی فضائیہ کے سابق انٹیلی جنس سربراہ جنرل ابراہیم ہوویجہ کو گرفتار کرلیا گیا، جو بشار الاسد اور ان کے والد حافظ الاسد کے قریبی ساتھی سمجھے جاتے تھے۔
حکام کے مطابق، باغیوں کے حملوں میں بشار الاسد کے قریبی کمانڈر “ٹائیگر” کہلانے والے سحیل الحسن کے حامی بھی شامل تھے۔ رپورٹس کے مطابق، یہ گروہ حکومتی فورسز کے خلاف بغاوت کر چکا ہے اور مختلف علاقوں میں مزاحمت کر رہا ہے۔
حکومت نے لاذقیہ، طرطوس اور حمص میں رات بھر کرفیو نافذ کردیا اور زیادہ تر علاقوں میں فوجی کمک بھیج دی گئی۔ رپورٹ کے مطابق، یہ حملے اس وقت کے سب سے خطرناک حملوں میں شمار کیے جا رہے ہیں، اور ملک میں خانہ جنگی مزید سنگین ہوسکتی ہے۔