انسان ایک ایسی مخلوق ہے جس کی نس نس میں احساس برتری اور تکبر کا عنصر کوٹ کوٹ کر بھرا ہے۔ جس کا مظاہرہ وقتاً فوقتاً کرکے وہ اپنے ظرف کا پتا دیتا ہے۔ ایک طرف وہ زمین اور آسمان کی تسخیر میں جان کی بازی لگا کر ارتقاء کی بلندیوں کو چھو رہا ہے اور یہی احساس برتری اس کے تکبر کا سبب ہے۔
خالق کائنات نے ایک طرف انسان کو اشرف المخلوقات بنا کر تمام مخلوقات کو اس کے آگے سجدہ ریز کرایا تو وہیں اسے اتنا کمزور رکھا کہ وہ غیر مرئی جانداروں کے سامنے بے بس ہوگیا اور یہی امر انسان کی اصل حقیقت کو آشکارا کرنے کے لیے کافی ہے۔
اس کی مثال اب تک آنے والے تمام قدرتی آفات اور وبائیں ہیں جن کے سامنے انسان لاچار اور بے بس ہوجاتا ہے۔ حالیہ کرونا کی وبا نے بھی دنیا بھر میں اپنے تباہ کن اثرات ظاہر کیے۔ گو کہ انسان اپنی بہترین حکمت عملی کے باعث اس پر قابو پاگیا مگر بے شمار قیمتی جانوں کے زیاں کے بعد۔ اس کے علاوہ بھی کئی وبائی امراض وقتاً فوقتاً سر اٹھاتے اور لوگوں میں خوف و دہشت پھیلاتے ہیں۔
ایسی ہی ایک وبائی صورت حال کانگو وائرس کی ہے، یہ بیماری ہر سال ملک بھر میں سر اٹھاتی ہے۔ نتیجے میں چند خاندان اپنے پیاروں کو کھو دیتے ہیں۔ محکمہ صحت کے مطابق 2015 میں بلوچستان بھر میں کانگو وائرس کے 56 کیسز رپورٹ ہوئے جن میں 13 افراد نے دم توڑ دیا۔ رواں سال میں بھی کوئٹہ میں پھر وبائی صورت حال نے سر اٹھا لیا ہے۔
متاثرہ افراد کی تعداد 20 سے اوپر ہے جن میں اب تک دو افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں جب کہ دیگر افراد اب بھی اس سے نبرد آزما ہیں۔ گو کہ اب تک یہ صرف ایک مخصوص علاقے تک محدود ہے مگر بے احتیاطی کے باعث بعید نہیں کہ یہ وبائی صورت حال اختیار کرے۔ اس لیے صورت حال کی سنگینی سے نمٹنے کے لیے اس کے بارے میں جاننا اور احتیاط کرنا ضروری ہے۔
کانگو وائرس کیا ہے؟
کانگو وائرس کا سائسی نام کریمین کانگو ہمریجک فیور (Crimean-Congo hemorrhagic fever) ہے۔ اسے سی سی ایچ ایف بھی کہتے ہیں۔ یہ وائرس یوکرائن کے جزیرے کریمیا میں 1944ء میں پہلی بار دریافت ہوا۔ اسی دوران براعظم افریقہ کے ملک کانگو میں بھی اس وائرس کی وبائی صورت حال پیدا ہوئی۔ انہی دو علاقوں کے مشترکہ نام پر اس وائرس کا نام رکھا گیا۔
کانگو وائرس کی اقسام
1: ڈینگی وائرس(Dengue)
2: ایبولا وائرس(Ebola)
3: لیسا وائرس(LASSA)
4: ریفٹی ویلی وائرس(RiftVally)
کانگو وائرس کے پھیلنے کے ذرائع
یہ ایک متعدی مرض ہے جو مویشیوں کے جسم پر پائے جانے والے چیچڑ (Tics) سے انسانوں میں منتقل ہوتا ہے۔ یہ چیچڑ مال مویشیوں کی کھال پر چپکے ہوتے ہیں اور ان کا خون چوستے ہیں۔ گائے، بھینس اور بھیڑ، بکریوں کی دیکھ بھال اور ذبح کرنے کے دوران بے احتیاطی کے سبب اس وائرس سے متاثرہ چیچڑ انسانوں کو کاٹ کر وائرس کی منتقلی کا سبب بنتے ہیں۔
اس کے علاوہ متاثرہ جانور یا انسان کے خون، دیگر رطوبت، جسمانی ملاپ، مریض کی دیکھ بھال یا پھر متاثرہ میت کو غسل دینے میں بے احتیاطی کہ وجہ سے بھی یہ مرض پھیل سکتا ہے۔ اس لیے اس وائرس کا زیادہ تر شکار قصاب اور جانوروں کی دیکھ بھال کرنے والے یا پھر صحت کے شعبے سے وابستہ افراد ہوتے ہیں۔
علامات
اس وائرس سے متاثرہ شخص میں اچانک تیز بخار، سر، کمر اور پھٹوں میں درد اور کھچاؤ پیدا ہوتا ہے۔ ساتھ ہی متلی، قے، گلے میں سوزش اور چھالوں کی شکایت ہوتی ہے۔ تشخیص کے دوران مریض کے سفید خلیوں اور پلیٹلیٹس میں واضح کمی ہوتی ہے۔
جس کی بنا پر قوت مدافعت میں کمی واقع ہوجاتی ہے اور خون پتلا ہونے کی وجہ سے بخار ہیموریجک فیور کی شکل اختیار کرتا ہے۔ جسم کے کسی بھی حصے مثلا کان، ناک، منہ اور اندرونی اعضاء سے خون کا بہنا شروع ہوجاتا ہے۔ ساتھ ہی جسم پر بھی سرخ دھبے نمودار ہوتے ہیں۔ مریض کا جگر، پھیپھڑے اور گردے متاثر ہوتے ہیں اور ایک ہفتے کے اندر اندر مریض کی موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔
تشخیص اور علاج
اس وائرس کی تشخیص کے لیے متاثرہ مریض کے خون کے نمونے لے کر پی سی آر کیا جاتا ہے۔ یہ مرض لاعلاج نہیں، اس لیے مذکورہ بالا علامات کی روشنی میں ابتدائی طبی امداد کے بعد متاثرہ شخص کو فوری طور پر ٹرشری کئیر سینٹر منتقل کرنا چاہیے تاکہ بروقت علاج ممکن ہو۔
احتیاطی تدابیر
متعدی بیماریوں کے صورت میں جہاں متاثرہ افراد کا علاج ضروری ہے، وہیں ان کی مزید روک تھام کے لیے احتیاطی تدابیر بھی اہم ہیں اور یہاں سب سے اہم بات یہ ہے کہ اب تک کانگو وائرس سے بچنے کی ویکسین نہیں بنی۔ وائرس زدہ کیڑوں کی موجودگی کے باوجود بھی مویشیوں میں علامات نہیں ہوتیں اس لیے بھی بچاؤ کے لیے احتیاطی تدابیر لازمی ہیں۔ اس سلسلے میں سب سے اہم حکومت کی جانب سے درج ذیل آگاہی مہم ہے جو عوامی سطح پر دی جانی چاہیے۔
1: مویشی منڈی میں جانوروں کو دیکھنے، ان کی دیکھ بھال کرنے، ذبح کرنے اور کھال اتارتے وقت دستانوں اور ماسک کا استعمال لازمی کریں۔
2: چیچڑ وغیرہ سے بچاؤ کا لوشن لگائیں۔
3: مویشی منڈی میں لمبی آستین والے کپڑے پہن کر جائیں۔
4: بچوں کو مویشی منڈی ہمراہ لے جانے سے گریز کریں۔
5: مویشی رکھنے والی جگہ باقاعدگی سے کیڑے مار سپرے کروائیں۔
6: جانور ذبح کرنے کے بعد آلائشوں کو احتیاط کے ساتھ ٹھکانے لگائیں۔
7: گھروں میں جانوروں کا گوشت دھونے سے پہلے دستانے پہنیں اور گوشت کو اچھی طرح سے پکائیں۔
8: متاثرہ مریضوں کی دیکھ بھال کرتے وقت دستانے، ماسک اور حفاظتی لباس کا استعمال کریں۔
9: متاثرہ مریض سے ملنے یا اس کی دیکھ بھال کے بعد ہاتھوں کو باقاعدگی سے صابن وغیرہ سے دھوئیں۔
10: مریض کا بچا ہوا کھانا تلف کریں۔
11: کانگو سے ہلاک میت کی جسمانی رطوبتوں سے احتیاط کرتے ہوئے ان کے غسل اورتدفین کا انتظام کریں۔ اس دوران ماسک اور دستانوں کا استعمال کریں۔
یاد رکھیں احتیاط علاج سے بہتر ہے۔