کراچی: سندھ ہائی کورٹ نے لاپتا افراد کی بازیابی سے متعلق درخواستوں پر پولیس رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے شہریوں کی بازیابی کے لیے اقدامات مزید تیز کرنے کا حکم دے دیا۔
جسٹس نعمت اللہ پھلپھوٹو کی سربراہی میں دو رکنی بینچ کے روبرو لاپتہ افراد کی بازیابی سے متعلق درخواستوں کی سماعت ہوئی۔ درخواست گزاروں میں مسماۃ عاصمہ، صغیر النساء ، محمد قادر، ممتاز علی، غلام مصطفیٰ و دیگر شامل ہیں۔
لاپتا شہری کے اہلخانہ نے آہ و بکا کرتے ہوئے کہا کہ میں ہاتھ جوڑ کر التجا کرتا ہوں کیس بند کر دیں اور یہ تماشہ بھی۔ میرے بھائی فرقان کا کچھ معلوم نہیں ہوسکا ہے، دھکے کھلائے جا رہے ہیں۔ پولیس کے پاس جاتے ہیں تو وہ کہتی ہے ہمارے پاس نہیں ہے۔ 9 سال ہوگئے لاپتہ فرقان اور ندیم کو بازیاب نہیں کرایا جاسکا۔
پولیس حکام نے عدالت میں رپورٹ پیش کی تاہم عدالت نے پولیس کی رپورٹ کو اسٹیریو ٹائپ قرار دیکر مسترد کر دی۔ لاپتہ افراد کی بازیابی میں پیش رفت نہ ہونے پر عدالت نے اظہار برہمی کیا۔
جسٹس نعمت اللہ پھلپھوٹو نے ریمارکس دیے کہ پولیس کی رپورٹ روایتی ہے، پولیس لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے کیوں کچھ نہیں کرتی۔
سرکاری وکیل نے موقف دیا کہ 21 جے آئی ٹی اور 60 ٹاسک فورس کے اجلاس ہوچکے ہیں۔ جسٹس نعمت اللہ پھلپھوٹو نے استفسار کیا کہ سیکریٹری داخلہ کی رپورٹ کہاں ہے؟ سرکاری وکیل نے موقف دیا کہ سیکریٹری داخلہ کی رپورٹ جمع کرا دی گئی ہے۔
عدالت نے سیکریٹری داخلہ اور سیکریٹری دفاع سمیت پولیس حکام سے رپورٹس طلب کرلیں۔ عدالت نے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے اقدامات مزید تیز کرنے کا حکم دے دیا۔