لاہور: بہاولپور چڑیا گھر میں شیر کے پنجرے میں شہری کے ہلاکت کے معاملے پر ہونیوالی تحقیقات میں مرنیوالے شہری ہی پر تمام ملبہ ڈالنے کی کوشش کی جارہی۔
چڑیا گھر میں ٹائیگرز کی خوراک بننے والے شہری کو نشئی اور جرائم پیشہ قرار دے کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ شہری اپنی غلطی سے شیروں کے پنجرے کے اندر گیا اور ان کی خوراک بن گیا، تاہم اس پہلو پر بات ہی نہیں کی جارہی کہ یہ معاملہ چڑیا گھر انتظامیہ کی واضح نااہلی اور سکیورٹی کی بھی ناکامی ہے۔چڑیا گھر میں 86 سے زائد ملازمین کے باوجود ایک شہری کی لاش شیروں کے پنجرے سے برآمد ہونا چڑیا گھر کی انتظامیہ کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔
ذرائع کے مطابق کلوزسرکٹ کیمروں کی تنصیب سمیت سکیورٹی انتظامات بہتر بنانے، جانوروں کی سہولیات کو اپ گریڈ کرنے کے لیے 22کروڑ روپے کے فنڈز جاری ہوئے تھے لیکن چڑیا گھر میں صرف داخلی دروازے پر ہی کیمرے لگے ہیں۔ ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ چڑیا گھر کے کیوریٹر علی عثمان اعلیٰ افسران کے انتہائی چہیتے ہیں۔ ان کے خلاف جانوروں کی خوراک میں کرپشن سمیت دیگر الزامات کے حوالے سے کئی انکوائریاں بھی ہوئیں مگر وہ بچ نکلتے ہیں۔
علی عثمان کے پاس اس وقت 7 عہدے ہیں۔ وہ بیک وقت ڈپٹی ڈائریکٹر چشمہ بیراج میانوالی، ڈپٹی ڈائریکٹر وائلڈ لائف بہاولپورڈویژن، کیوریٹر بہاولپورچڑیا گھر،اسسٹنٹ ڈائریکٹر وائلڈ لائف بہاولپور، اسسٹنٹ ڈائریکٹر وائلڈلائف رحیم یارخان،اسسٹنٹ ڈائر یکٹر وائلڈ لائف بہاولنگر ،اسسٹنٹ ڈائریکٹر وائلڈ لائف لال سوہانرہ کی ذمے داری پر تعینات ہیں جس کی وجہ سے وہ کسی ایک جگہ پر بھی بہترپرفارمنس نہیں دکھا پارہے۔
وائلڈلائف ذرائع کے مطابق علی عثمان ایک محنتی اورقابل افسر ہیں لیکن بیک وقت 7 ذمے داریوں کی وجہ سے وہ اپنی پرفارمنس نہیں دکھا پارہے ہیں۔علی عثمان پر جہاں چڑیا گھر کے معاملات میں سستی اورنااہلی کے الزامات ہیں وہیں ان پر یہ الزام بھی ہے کہ چولستان میں نایاب نسل کے چنکارہ ہرنوں کے بے دریغ شکار بھی کروا رہے ہیں اور اس کام کے لیے انہوں نے مخصوص وائلڈلائف انسپکٹر تعینات کررکھے ہیں۔ غیرقانونی شکار سے متعلق ان کا حکم نہ ماننے والوں کو محکمانہ کارروائیوں کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔
گزشتہ روز چولستان وائلڈلائف فورس میں ڈیوٹی دینے والے ایک انسپکٹر اور 5 وائلڈلائف ووچرز کو بہاولپور چڑیا گھر میں رات کی ڈیوٹی پر تعینات کردیا گیا۔ بہاولپور چڑیا گھر میں پیش آنے والے واقعے سے متعلق کیوریٹر علی عثمان سے متعدد بار رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی اور واٹس ایپ پر ان سے وائس میسج میں تفصیلات بتانے کا کہا گیا مگر انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔
نگراں وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی سے لاہورسفاری زو میں میڈیا سے بات چیت کے دوران جب بہاولپور چڑیا گھر میں پیش آنے والے واقعے بارے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ یہ کوئی سکیورٹی ناکامی ہے اور نہ ہی کسی افسر کی غلطی ہے بلکہ یہ مرنیوالے کی خود کی غلطی ہے جو شیروں کے پنجرے میں داخل ہوا۔ اسی دوران وزیراعلیٰ کے ساتھ بیٹھے نگراں وزیر اطلاعات عامر میر نے کہا کہ مرنیوالا شخص سیڑھی لگا کر شیروں کے پنجرے میں داخل ہوا۔
عوامی اورسماجی حلقوں کا کہنا ہے اگرایک شخص سیڑھی لگا کر چڑیا گھر کے پنجرے میں داخل ہوا اور وزیراعلیٰ کہتے ہیں یہ سکیورٹی کی ناکامی نہیں ہے تو کل کو دوبارہ کوئی شخص شیروں اور دیگر جانوروں کے پنجرے کے قریب جاکرانہیں نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا ہے اور ان کی خوراک میں زہرملا دیا جاتا ہے یا کوئی سامان چوری کرلیتا ہے تو پھرکون ذمے دار ہوگا۔ وزیراعلیٰ کیوریٹر کی حمایت کرنے کے بجائے ان کے خلاف کارروائی کریں۔