سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے برطرف جج شوکت عزیز صدیقی کو کیس میں مزید فریقین بنانے کی اجازت دے دی۔
شوکت عزیز صدیقی کی بحالی سے متعلق سپریم کورٹ میں براہ راست سماعت نشر کی گئی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے سماعت کی۔
دوران سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بینچ کی تبدیلی پر وضاحت کی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ افسوس کی بات ہے آج کل ہر کوئی فون اٹھا کر صحافی بنا ہوا ہے، پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کی روشنی میں یہ بینچ تشکیل دیا، پہلے اس بینچ میں کون کون سے ججز تھے۔
وکیل حامد خان نے بتایا کہ سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے کیس سنا، بینچ میں جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس میاں مظہر عالم اور جسٹس سجاد علی شاہ شامل تھے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ جسٹس سردار طارق اور جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا ہم اس بینچ میں نہیں بیٹھنا چاہتے جبکہ باقی ججز ریٹائرڈ ہو چکے ہیں لیکن میں نے بینچ سے کسی کو نہیں ہٹایا، بینچوں کی تشکیل اتفاق رائے یا جمہوری انداز میں ہو رہی ہے۔ موبائل ہاتھ میں اٹھا کر ہر کوئی صحافی نہیں بن جاتا، صحافی کا بڑا رتبہ ہے اور اج کل جمہوریت کا زمانہ ہے۔
شوکت عزیز صدیقی کے وکیل حامد خان نے کہا کہ اس وقت جمہوریت مشکل حالات میں ہے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دییے کہ آپ کی معاونت درکار رہے گی اور جمہوریت چلتی رہے گی، آپ نے اسے آگے لے کر چلنا ہے۔
دوران سماعت، ایڈووکیٹ حامد خان نے شوکت عزیز صدیقی کی راولپنڈی بار میں کی گئی تقریر کا متن پڑھا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اسوقت اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کون تھے۔
حامد خان نے بتایا کہ اس وقت چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ انور کانسی تھے، شوکت عزیز صدیقی پر 4 ریفرنسز بنائے گئے اور ایک ریفرنس یہ بنایا کہ سرکاری رہائش گاہ پر شوکت عزیز صدیقی نے زائد اخراجات کیے، ہم نے کونسل میں درخواست دی کہ ججز کی سرکاری رہائش گاہوں پر ہونے ولے اخراجات کی مکمل تفصیل دیں لیکن کونسل نے جواب دیا جو مانگ رہے ہیں وہ غیر متعلقہ ہے۔ ایک ریفرنس 2017 کے دھرنے کی بنیاد پر بنایا گیا، جس میں شوکت عزیز صدیقی نے بطور جج اسلام آباد ہائیکورٹ ریمارکس دیے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں عدالتی ریمارکس پر ریفرنس بنایا گیا۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ شوکت صدیقی کے خلاف شکایات کنندگان کون تھے۔
حامد خان نے کہا کہ رہائش گاہ پر زائد اخراجات کے شکایت کنندہ سی ڈی اے ملازم انور گوپانگ تھے، ایک ریفرنس ایڈووکیٹ کلثوم اور ایک سابق ایم این اے جمشید دستی نے بھیجا۔
جمال خان مندوخیل نے سوال کیا کہ جمشید دستی کس سیاسی جماعت کا حصہ تھے؟ حامد خان نے جواب دیا کہ مجھے کنفرم نہیں لیکن شاید آزاد حیثیت میں ہوں گے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ یعنی آپ کہہ رہے ہیں جمشید دستی مکمل آزاد نہیں تھے۔
وکیل حامد خان نے کہا کہ راولپندی بار میں کی گئی تقریر پر جوڈیشل کونسل نے خود نوٹس لیا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ جوڈیشل کونسل کو کیسے پتا چلا کہ کسی جج نے تقریر کی ہے؟ حامد خان نے بتای کہ ایجینسیوں نے شکایت کی تھی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ریکارڈ دیکھ کر بتائیں وہاں کیا لکھا ہوا ہے۔ وکیل حامد خان نے کہا کہ ریکارڈ میں 22 جولائی 2018 کا رجسٹرار کا ایک نوٹ موجود ہے۔ رجسٹرار سپریم کورٹ نے سپریم جوڈیشل کونسل کو نوٹ لکھا تھا۔
چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ کیا شوکت عزیز صدیقی کی تقریر تحریری تھی؟ وکیل حامد خان نے کہا کہ شوکت عزیز صدیقی نے فی البدی تقریر کی تھی، چیف جسٹس نے سوال کیا کہ شوکت عزیز صدیقی کو مرضی کا فیصلہ کرنے کا کس نے کہا تھا؟
وکیل حامد خان نے کہا کہ جنرل فیض حمید ایک برگیڈیئر کے ساتھ شوکت عزیز صدیقی کے گھر گئے تھے۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ جس شخص پر الزام لگا رہے ہیں انہیں فریق کیوں نہیں بنایا گیا؟ حامد خان نے بتایا کہ شخصیات ادارے کی نمائندگی کر رہی تھیں اس لیے فریق نہیں بنایا، فیض حمید کو بطور گواہ سپریم جوڈیشل کونسل میں بلانا تھا۔
چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ یا کسی پر الزام نہ لگائیں یا پھر جن پر الزام لگا رہے انہیں فریق بنائیں، ادارے نہیں لوگ بُرے ہوتے ہیں، ملک کی تباہی اس وجہ سے ہوتی کہ شخصیات کے بجائے اداروں کو برا بھلا کہتے ہیں، اداروں کو لوگ چلاتے ہیں۔
وکیل حامد خان نے بتایا کہ فیض حمید کو فریق بنانے کا جوڈیشل کونسل نے موقع نہیں دیا، جس پر چیف جسٹس نے سوال کیا کہ اب تو آپ کے پاس موقع ہے اب کیوں نہیں فریق بنا رہے؟ کسی کی پیٹھ پیچھے الزام نہیں لگانے دیں گے، اس اعتبار سے تو سپریم جوڈیشل کونسل کا فیصلہ درست ہے۔ وکیل نے کہا کہ فیض حمید کو فریق بنانے پر اعتراض نہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ فریق بنا کر ہم پر احسان نہ کریں، اداروں پر الزام نہیں لگانے دینگے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ شوکت عزیز صدیقی نے الزام ہائی کورٹ چیف جسٹس پر لگایا تھا لیکن جسٹس انور کانسی کو بھی فریق نہیں بنایا گیا۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا فیض حمید کو کسی اور درخواست گزار نے فریق بنایا ہے؟ وکیل بار کونسل نے کہا کہ فیض حمید کو نہیں آئی ایس آئی کو فریق بنایا ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ انور کانسی نے سپریم جوڈیشل کونسل میں جواب جمع کرایا تھا۔
وکیل حامد خان نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل میں جواب جمع کروایا تو سماعت کا موقع ہی نہیں دیا گیا، سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے اوپن کورٹ میں ریفرنسز کی سماعت کا حکم دیا تھا، عدالت نے کہا تھا جو جج چاہے اس کے خلاف کارروائی کھلی عدالت میں ہوگی، سپریم جوڈیشل کونسل نے صرف ابتدائی سماعت کی تھی باضابطہ انکوائری ابھی ہونی تھی۔
جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ شوکت عزیز صدیقی نے اپنی تقریر کا متن بیان حلفی پر کونسل کو کیوں نہیں دیا؟
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ شوکت عزیز صدیقی کہتے ہیں انہیں سنے بغیر نکالا گیا، آپ بھی فیض حمید وغیرہ کو بغیر موقف پیش کیے فیصلہ کروانا چاہتے ہیں، شوکت عزیز صدیقی نے بطور جج کبھی کسی کو سنے بغیر اس کے خلاف فیصلہ نہیں کیا ہوگا، ممکن ہے جن پر الزامات لگ رہے وہ شوکت عزیز صدیقی کے الزام کی تصدیق کر دیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کئی لوگ بعد میں تسلیم کر لیتے ہیں کہ دباؤ میں کام کیا تھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کوئی جج کرپٹ ہو تو الزام ضلعی عدلیہ پر نہیں اس جج کےخلاف لگے گا۔
حامد خان اور بار کونسلز نے فیض حمید کو فریق بنانے کے لیئے درخواست دینے کی استدعا کر دی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سردیوں کی چھٹیاں آ رہی ہیں، آئندہ سماعت پر صرف فریقین کو نوٹس ہی جاری ہونگے، حامد خان صاحب آپ ہچکچا رہے ہیں اس لئے سماعت جنوری میں رکھ لیتے ہیں، کس کو فریق بنانا ہے یہ ہمارا کام نہیں لیکن جو فریق نہ ہو اس پر الزام نہیں لگانے دیں گے، فریق نہیں بنانا تو شخصیات کے نام نکال کر نئی درخواست دائر کریں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اس پر بھی معاونت کریں کہ رجسٹرار کسی جج کی خلاف کونسل کو خط لکھ سکتا ہے یا نہیں۔
سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی بارے چیف جسٹس پاکستان نے اہم ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ میں ذاتی طور پر جوڈیشل کونسل کی کارروائی خفیہ رکھنے کے خلاف ہوں، میرے خیال میں کسی جج پر الزام آئے تو کونسل کی کارروائی اوپن ہونی چاہیے، کل آخری ورکنگ ڈے ہے پھر چھٹیاں ہو جائیں گی، کسی جج نے بیرون ملک بھی جانا ہے۔
عدالت نے شوکت عزیز صدیقی کو کیس میں مزید فریقین بنانے کی اجازت دیتے ہوئے کیس کی سماعت کل ساڑھے 10 تک ملتوی کر دی۔
واضح رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج نے ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن راولپنڈی میں جولائی 2018 میں ایک تقریر کی تھی جس میں انہوں نے آئی ایس آئی پر تنقید کی تھی جس پر انہیں برطرف کر دیا گیا تھا۔
جج شوکت عزیز صدیقی نے برطرفی کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی ہے۔