اسلام آباد: ہائیکورٹ نے سائفر کیس میں ٹرائل کورٹ کے آرڈر کے خلاف بانی چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست پر ایف آئی اے کو نوٹس جاری کر دیا جبکہ عدالت نے بانی چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل کو فرد جرم عائد کرنے کے عدالتی حکمنامے کے خلاف درخواست پر رجسٹرار آفس کے اعتراضات دور کرنے کی ہدایت کر دی۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ اتھارٹیز ایسا مٹیریل پیش کر سکتی ہیں جن کی بنیاد پر ملزمان کا جیل ٹرائل کیا جا سکتا ہے۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے سائفر کیس میں ٹرائل کورٹ کے مختلف آرڈرز کے خلاف بانی چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواستوں پر سماعت کی۔
سائفر کیس کا ٹرائل غیر قانونی قرار دے کر مقدمے سے ڈسچارج کرنے کی استدعا پر عدالت نے کہا کہ آپ اپنے آپ کو ٹرائل کورٹ کے عبوری حکم کے خلاف استدعا تک محدود رکھیں۔ آپ کی درخواست پر تو درخواست نامکمل ہونے کا اعتراض بھی لگا ہوا ہے۔ عدالت نے اعتراضات دور کرنے کی ہدایت کر دی۔
اسکے علاوہ، 4 دسمبر کو ملزمان میں چالان کی نقول تقسیم کر کے 12 دسمبر کو فرد جرم عائد کرنے کے عدالتی حکمنامے کے خلاف بھی درخواست پر سماعت ہوئی۔ عدالت نے کہا کہ آپ نے جیل ٹرائل کے خلاف تفصیلی فیصلہ پڑھ لیا ہے؟ پہلے وہ پڑھ لیں۔ اس میں لکھا ہے کہ جیل ٹرائل کن حالات میں ہو سکتا ہے؟
پٹیشنر کے وکیل سکندر ذوالقرنین نے کہا کہ ٹرائل کورٹ نے جیل ٹرائل کی منظوری ہونے سے قبل جیل میں ٹرائل کیا، ٹرائل کورٹ کے جج کورٹ کو خود سے جیل احاطہ میں شفٹ نہیں کر سکتے تھے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل نے سائفر کیس کے جیل ٹرائل کا 29 نومبر کا نوٹیفکیشن عدالت میں پیش کیا۔ وکیل نے ایک کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سائفر کیس کے ٹرائل کے لیے درست طریقہ کار اختیار نہیں کیا گیا
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے آپ جو عدالتی حوالہ پیش کر رہے ہیں اس میں منظوری کے بغیر جیل ٹرائل کالعدم ہوا تھا، یہی ریلیف تو آپ کو ملا ہے کہ عدالت نے جیل ٹرائل کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔ وکیل نے کہا کہ میں عدالت کی معاونت کروں گا اور عدالتی نظیریں بھی پیش کروں گا کہ ٹرائل ہی غلط ہو رہا ہے۔
عدالت نے درخواست پر نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت 28 دسمبر تک ملتوی کر دی۔