اسلام آباد: ہائی کورٹ نے سائفر کیس کے ان کیمرہ ہونے والے ٹرائل پر سوالات اٹھا دیے۔
سائفر کیس کی ان کیمرہ کارروائی کے خلاف درخواست پر سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کی، جس میں بیرسٹر سلمان اکرم راجا ویڈیو لنک کے ذریعے پیش ہوئے۔
سماعت کے آغاز پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ مجھے کچھ تشویش ہے جس طرح کارروائی آگے بڑھ رہی ہے۔ بند دروازوں کے پیچھے ہونے والے ٹرائل سے متعلق اٹھنے والے سوالات کا جائزہ لینا ہے۔ ایک دو لوگوں یا خاندان کے افراد کی موجودگی سے بھی یہ کلوزڈ ڈور ٹرائل ہی رہے گا۔
اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ پراسکیوشن کے 25 گواہان کا بیان ریکارڈ کیا جاچکا ہے۔ 21 دسمبر کے بعد 12 گواہان کے بیانات میڈیا کی موجودگی میں ریکارڈ کیے گئے ۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ گزشتہ سماعت کے مطابق ٹرائل جیل میں ہو گا تو اوپن ہو گا ۔ اب صورتحال تبدیل ہوئی ہے کہ جیل ٹرائل ان کیمرہ ٹرائل ڈکلیئر کر دیا گیا ۔ ان کیمرہ کا سیکشن 14 کا آرڈر فیلڈ میں ہے اس کی موجودگی میں کیا ہوا ۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ ہم نے اس ججمنٹ میں اوپن ٹرائل کو سمجھنے کی کوشش کی ہے کیوں نہیں سمجھتے ۔ 1923 میں انسانی حقوق بنیادی حقوق دنیا کو معلوم نہیں تھے ۔ یہ میرے سامنے فرسٹ ایمپریشن کا کیس ہے ۔ اسٹیٹ کی سیفٹی کمپرومائز نہیں ہونی چاہیے ۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ دیکھیں وہ کہہ رہے ہے میٹریل ناکافی ہے ۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ اسٹیٹ کا موقف ہے کہ 3 ایسے گواہ تھے جن کا بیان نشر نہیں کیا جانا چاہیے تھا۔ ان گواہان کے بیانات 15 دسمبر کو ریکارڈ کیے گئے ، جس پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ 12 دیگر گواہان کے بیانات بھی تو کلوزڈ ڈور ٹرائل میں ہوئے ہیں ناں۔ آپ سمجھتے کیوں نہیں ہیں ، ہم نے آپ کو سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ اوپن ٹرائل کیا ہوگا ۔ ان کیمرہ کرنے کی جج کی وجوہات دیکھ لیں اس میں 3 لائنیں لکھی ہوئی ہیں ۔
عدالت نے کہا کہ اوپن ٹرائل کیا ہے یہ واضح کر چکے ہیں۔ تم آ جاؤ اور تم آ جاؤ، یہ اوپن ٹرائل نہیں ہوتا۔ اوپن ٹرائل میں جو چاہے آ سکتا ہے۔ میڈیا کو اجازت ہے کہ جو چاہے آ سکتا ہے۔ ایسے نہیں ہوتا ، اس بارے باقاعدہ آرڈر ہونا چاہیے۔ کیا جرح میڈیا کی موجودگی میں کی گئی؟۔
اٹارنی جنرل نے بتایا کہ جن 3 افراد کی جرح ہوئی وہ سائفر کی کوڈ، ڈی کوڈ سے متعلق تھے۔ سائفر سے متعلق سیکرٹری خارجہ کا بیان بھی ان کیمرہ ہو گا۔ عدالت نے کہا کہ پراسیکیوشن کو کہنا چاہیے تھا کہ جج صاحب 3 گواہان کے لیے ان کیمرہ ٹرائل کا حکم دیں تا کہ ٹرائل پر سوالات نہ اٹھیں۔ کبھی کبھی اچھا بھلا کیس ہوتا ہے لیکن جس طریقے سے چلایا جاتا ہے خراب ہو جاتا ہے۔
پراسیکیوٹر راجا رضوان عباسی نے عدالت میں کہا کہ سائفر ان کیمرہ ٹرائل کے خلاف درخواست قابل سماعت نہیں ہے۔ اس موقع پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ سائفر ٹرائل کے لیے 14 دسمبر کو حکم ہوا اور 15 دسمبر کو ٹرائل شروع ہوا۔ اگر عدالت چاہتی ہے کہ جرح اوپن ہو تو ہو جائے گی۔ عدالت نے کہا کہ یہ عدالت نہیں کہہ رہی یہ ضرورت ہے کہ ٹرائل اوپن ہو اور یہ پوری دنیا میں ہوتا ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ یقین دہانی کراتا ہوں کہ ان کیمرہ جرح صرف ان 4 گواہان کی ہو گی جو دفتر خارجہ کے سائفر سکیورٹی سے جڑے ہیں۔ عدالت نے استفسار کیا کہ یہ چاروں گواہان دفتر خارجہ کے ملازمین ہیں؟، جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ چاروں گواہان دفتر خارجہ کے ملازمین ہیں۔ چاروں گواہان سائفر ٹرانسکرپٹ کرنے اور سائفر سکیورٹی سسٹم سے جڑے ہیں۔ ان ملازمین کا کام پوری دنیا سے سائفر ڈی کوڈ کرنا ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ سائفر سسٹم کیسے کام کرتا ہے یہ تفصیلات پبلک کے سامنے نہیں لائی جا سکتی۔ 13 میں سے جو باقی 9 گواہان ہیں ان کی جرح دوبارہ کر لیں گے۔ اگر عدالت 13 میں سے 9 گواہان کے بیانات کالعدم قرار دیتی ہے تو دوبارہ ہوں گے۔
عدالت نے وکیل سے پوچھا کہ آپ اٹارنی جنرل کی اس پیشکش پر کیا کہیں گے کہ گواہان کے بیانات دوبارہ ریکارڈ کرلیے جائیں؟، جس پر سلمان اکرم راجا نے کہا کہ ہماری استدعا ہے کہ عدالت پہلے ٹرائل کورٹ کے ان کیمرہ پروسیڈنگ کے آرڈر کو دیکھے ۔ میرے پاس پہلے 3 گواہان کے بیانات کے عدالتی آرڈر کی کاپی ہے ۔ وکیل نے کہا کہ سرٹیفائیڈ کاپی تو پبلک دستاویز ہوتی ہے، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ میری استدعا ہوگی کہ اسے پبلک نہ کیا جائے ۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ میں یہ دستاویزات دیکھنا چاہتا ہوں۔ آپ یہ مجھے فوری طور پر فراہم کریں۔
عدالت نے کہا کہ اس معاملے میں اہم آئینی ایشوز سامنے آئے ہیں عدالت ان کو دیکھے گی ۔ سپریم کورٹ نے اس کیس میں اپنے فیصلے میں بھی مواد کو ناکافی قرار دیا تھا۔ میرا مائنڈ آج آپ نے بہت کلئیر کردیا ۔ بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت 11 جنوری تک کے لیے ملتوی کردی۔