اسلام آباد ہائی کورٹ نے پولیس کو بلوچ مظاہرین کو ہراساں نہ کرنے کا حکم دے دیا۔
بلوچ مظاہرین کی پولیس کی جانب سے مسلسل ہراساں کرنے کے خلاف درخواست کی سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہوئی۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے درخواست کی سماعت کی۔
جسٹس محسن اخترکیانی نے اسلام آباد پولیس انتظامیہ کو بلوچ مظاہریں کو ہراساں نہ کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ نامعلوم افراد کی وجہ سے یہ بھائیوں بیٹوں کو یہاں ڈھونڈ رہے ہیں۔ جن کے بھائی باپ بیٹے گمشدہ ہیں وہ وہی جانتے ہیں ان پر کیا گزر رہی ہے۔وفاقی حکومت کو بھی سمجھ نہیں آتی ہم معاملات کہاں لیکر جا رہے ہیں۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دئیے شاہراہ دستور ڈی چوک یہاں تو زندگی گزر گئی لوگ احتجاج کرتے ہیں۔ قانون ہوتا تو یہ بلوچستان سے یہاں آتے۔ عورتوں اور بچوں کو کچھ ہوا تو انتظامیہ اور پولیس ذمہ دار ہوگی۔ مظاہرین کو تحفظ دینا بھی پولیس کی ذمہ داری ہے۔
نمائندہ آئی جی اسلام آباد نے عدالت میں موقف اختیار کیا کہ یہ کوئی چیز لے کر آئے ہیں تو ہمیں دکھائیں۔ ان کا آپس میں کوئی جھگڑا ہو گا تو کوئی نامعلوم افراد لے گئے۔
درخواست گزار کے وکیل عطا اللہ کنڈی نے کہا کہ یہ کہنا شروع کر دیتے ہیں اس چیز کی اجازت نہیں این او سی لیکر آئیں۔ ہم فوکل پرسن رکھنے کے لیے تیار ہیں لیکن یہ تنگ کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ دیگ میں بھی ہاتھ ڈال کر چاول بھی چیک کرتے ہیں قانون بھی کچھ ہے۔ سیکورٹی کے لیے واک تھرو گیٹ بھی یہ لگا سکتے ہیں۔
درخواست گزار کا موقف تھا کہ میرے والد 15 سال سے لاپتہ ہیں۔ ایس ایچ او کا رویہ بڑا عجیب ہے۔ ہم اسلام آباد آئے ہیں اور ہمارے ساتھ یہ رویہ ہے۔
ڈی سی اسلام آباد عرفان نواز میمن اور ایس ایس پی آپریشنز عدالت میں پیش ہوئے۔ ڈپٹی کمشنر اسلام آباد نے کہا کہ ساؤنڈ سسٹم 24 گھنٹے تو استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ دوسرے شہریوں کے بھی حقوق ہوتے ہیں۔