اسلام آباد: عالمی بینک کا کہنا ہے کہ پاکستان کا جولائی 2023ء سے جون 2024ء تک کا اکنامک آؤٹ لک غیر فعال ہے اور ترقی کی شرح کا تخمینہ صرف 1.7 فیصد ہے۔
افراط زر کا دباؤ کم ہونے پر ہو سکتا ہے کہ مالی سال 2024-25ء میں ترقی کی شرح 2.4 فیصد پر جا پہنچے لیکن مہنگائی اس سال بھی رہے گی، غریب گھرانے غذا پر زیادہ خرچ کریں گے جس سے غذاکی قیمتوں میں اضافہ ہوگا اور یوں غربت اور عدم مساوات مزید بڑھے گی۔
عالمی بینک کی گلوبل اکنامک رپورٹ کے مطابق جنوبی ایشیا کے ممالک پاکستان، بھارت ،بنگلا دیش اورمالدیپ میں ہونے والے انتخابات سے پیدا ہونے والی بے چینی سے خطے میں غیرملکی سرمایہ کاری متاثر ہوسکتی ہے۔
اگر سیاسی و سماجی بے چینی کے ساتھ تشدد بھی بڑھ گیا تو اس سے کمزور معیشت اور معاشی ترقی کی شرح مزید خراب ہوگی۔غذائی عدم تحفظ میں اضافے سے مشرق وسطیٰ میں جاری کشیدگی کا دائرہ پھیل سکتا ہے۔
پاکستان کے حوالے سے رپورٹ میں کہنا ہے کہ زری پالیسی کے بارے میں توقع ہے کہ یہ مہنگائی کو کنٹرول کرنے کیلئے سخت رہے گی جبکہ مالیاتی پالیسی بھی سکڑے گی جس سے قرض کی ادائیگی کے دباؤ کی عکاسی ہوتی رہے گی۔ سیاسی بے چینی سے ابھرنے والاکمزور اعتماد پرائیویٹ ڈیمانڈ کو سست کرنے میں کردار ادا کریگا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مالدیپ ، پاکستان اور سری لنکا کیلئے فنانسنگ کو بڑھانا ہوگا۔بڑھے ہوئے قرض والے ممالک جن میں بھارت پاکستان اور سری لنکا شامل ہیں کیلئے سود کی ادائیگی کا تخمینہ زیادہ ہوگا۔
پاکستان میں پیداوار مالی سال 2022-23ء میں 0.2 فیصد سکڑی اور یہ 2022ء کے سیلاب کے نقصانات اور سیاسی بے یقینی کا اثر تھاکہ کنزیومر پرائس افراط زر اونچی شرح میں رہا۔ اس سے جزوی طور پر 2023 ء کے اوائل میں کرنسی کی فرسودگی کی عکاسی ہوتی ہے۔ تاہم 2023ء کے آخر تک روپے نے استحکام کے اشارے دکھائے جس کے متعدد عوامل تھے۔