اسلام آباد: چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ مخالف کوئی نہ ہو ووٹ پھر بھی ڈالنے تو ہیں۔
علی ظفر نے کہا کہ اکبر ایس بابر جب پہنچے تو کاغذات نامزدگی کا وقت ختم ہو چکا تھا، اکبر ایس بابر آج تک اپنا پینل ہی نہیں دیا، اگر ان کے پاس پینل ہوتا تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں تھا۔
چیف جسٹس پاکستان نے پوچھا کہ الیکشن میں ایک شخص نے بھی ووٹ نہیں ڈالا۔
علی ظفر نے جواب دیا کہ کوئی مقابلے میں آیا ہی نہیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ یہ تو ڈکٹیٹرشپ ہوئی نا پھر، اگر آپ نے پینل بنا لیا اور گوہر خان نے بھی پینل بنا لیا اور آپس میں بانٹ لیے تو یہ جمہوریت تو نہ ہوئی، مخالف کوئی نہ ہو ووٹ پھر بھی ڈالنے تو ہیں، اگر آپ کو سینیٹ کے لیے ایک ووٹ نہ پڑے تو آپ سینیٹر نہیں بن سکتے، عام انتخابات میں بھی کم از کم ووٹ کی حد ہوتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: تحریک انصاف نے اپنے ہی ارکان کو لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں دی، سپریم کورٹ
علی ظفر نے جواب دیا کہ میں بلا مقابلہ سینیٹر بنا تھا، میں ٹیکنوکریٹ کی سیٹ پر سینیٹر بنا تھا، اگر آپ کی بات دیکھی جائے تو میں بھی سینیٹر نہ بنتا۔
علی ظفر نے مسلم لیگ ن کے بلامقابلہ انتخابات کا نوٹیفکیشن پیش کرتے ہوئے کہا کہ ن لیگ میں بھی سب بلامقابلہ انتخابات ہوئے تھے، اے این پی کے ضلعی صدور بھی بلامقابلہ منتخب ہوئے تھے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ بلامقابلہ انتخابات پارٹیوں میں ہوتے رہتے ہیں، اس پر تبصرہ نہیں کرینگے۔