پشاور ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کے مخصوص نشستوں کی الاٹمنٹ کے فیصلے پر حکم امتناع جاری کردیا۔
پشاور ہائی کورٹ میں سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں الاٹ نہ کرنے کے فیصلے کے خلاف درخواست پر سماعت ہوئی۔
پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن، مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی، جمیعت علماء اسلام، ایم کیو ایم اور دیگر سیاسی پارٹیوں کو فریق بناتے ہوئے مؤقف اپنایا کہ ہم سنی اتحاد کونسل میں شامل ہوگئے ہیں، مخصوص نشستیں الیکشن میں جنرل نشستوں کے تناسب سے دی جاتی ہیں لیکن سنی اتحاد کونسل کو نشستیں نہیں دی گئیں، الیکشن کے بعد بھی مخصوص نشستیں الاٹ کی جاسکتی ہیں۔
جسٹس اشتیاق ابراہیم نے پوچھا کہ یہ کیس صرف خیبرپختونخوا کی حد تک ہے یا پورے ملک تک؟
قاضی انور ایڈووکیٹ نے بتایا کہ الیکشن کمیشن نے قومی و صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں پر یکساں فیصلہ دیا، ہمارے حصے کی مخصوص سیٹیں آئینی و قانونی طور پر تقسیم نہیں کی جاسکتیں، ہم چاہتے ہیں کہ جن کو سیٹیں دی گئی ہیں وہ حلف نہ لیں۔
عدالت نے کہا کہ آپ یہ چاہتے ہیں کہ ان کو حلف سے روکا جائے، ہم اس معاملے کو دیکھتے ہیں پھر کوئی آرڈر جاری کریں گے۔
وکیل درخواست گزار نے کہا کہ الیکشن کمیشن کہتا ہے کہ سنی اتحاد کونسل نے لسٹ نہیں دی۔
جسٹس شکیل احمد نے ریمارکس دیے کہ آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ہم نے لسٹ نہیں دی تو پھر یہ سیٹیں دوسروں کو بھی نہیں دی جاسکتی۔
پشاور ہائیکورٹ نے قاضی انور کے دلائل مکمل ہونے کے بعد کل تک حکم امتناع جاری کرتے ہوئے الیکشن کمیشن و دیگر فریقین سے جواب طلب کرلیا اور سماعت کل تک ملتوی کردی۔
عدالت نے مخصوص نشستوں پر منتخب ہونے والے نئے ارکان اسمبلی کو حلف اٹھانے سے روکتے ہوئے ہدایت کی کہ اسپیکر مخصوص نشستوں پر منتخب ہونے والے خواتین اور اقلیتی ممبران سے کل تک حلف نہ لیں۔