اسلام آباد: چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا ہے کہ لاہور ہائیکورٹ کے ایک فیصلے سے الیکشن پھر ڈی ریل ہو سکتے تھے لیکن ہم نے چھٹیوں پر جانے سے پہلے رات کو بیٹھ کر اس آرڈر کے خلاف کیس سنا۔
جسٹس سردار طارق مسعود کی ریٹائرمنٹ پر فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ ہم تب وہ کیس تین سینیئر ججز پر مشتمل بینچ بنا کر سننا چاہتے تھے لیکن جسٹس اعجاز الاحسن نے بیٹھنے سے انکار کیا، ہم نے ان کے بعد دوسرے سینیئر جج کو ساتھ بٹھایا اور رات 12 بجے فیصلہ سنایا۔ ایسا نہ ہوتا تو صدر پاکستان اور الیکشن کمیشن کی دی تاریخ پر الیکشن ڈیل ریل ہو سکتے تھے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ جسٹس سردار طارق مسعود لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس بننے کے حقدار تھے اور انہیں چیف جسٹس نہ بنا کر صوبے کا نقصان ہوا لیکن اس کا فائدہ سپریم کورٹ کو ہوا کیونکہ یہ سپریم کورٹ آگئے۔
انہوں نے کہا کہ فوجی عدالتوں میں انٹرا کورٹ اپیلوں میں میری رائے میں جسٹس سردار طارق مسعود پر غیر ضروری اعتراض کیا گیا، جسٹس سردار طارق مسعود نے فوجی عدالتوں کے معاملے پر اپنے نوٹ میں کوئی رائے نہیں دی تھی اور جسٹس سردار طارق مسعود نے اعتراض ہونے پر بینچ میں بیٹھنے سے انکار کیا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ میں ججز کی خالی اسامیوں کا احساس ہے، ججز تعیناتیوں کے حوالے سے رولز میں ترامیم پر غور ہو رہا ہے اور وقت آ گیا ہے کہ ججز تقرری جوڈیشل کمیشن کا الگ سیکریٹریٹ ہو۔ جسٹس سردار طارق کہتے تھے 40سے 50 کیس میری عدالت میں لگا دیں اور انکی عدالت زیادہ فیصلے سنانے کے لیے مشہور ہے۔ جسٹس سردار طارق مسعود نے پریکٹس پروسیجر کمیٹی میں بڑا اہم کردار ادا کیا۔