غزہ میں لاکھوں بے گھر فلسطینیوں کا آج پہلا روزہ ہے جب کہ ماہ مقدس میں جنگ بندی کے ہونے کی امیدیں اسرائیلی بمباری کی گھن گھرج میں کہیں دب سی گئی ہیں البتہ امریکی صدر کا کہنا ہے کہ سیز فائر اب بھی ممکن ہے۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق رمضان کا آغاز ہوچکا ہے لیکن اقوام متحدہ کے ادارے اونرا کا کہنا ہے کہ غزہ میں ہر طرف بھوک و افلاس نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔
غزہ کے پناہ گزین کیمپ میں مقیم لاکھوں فلسطینیوں نے رمضان کا استقبال اس حال میں کیا کہ ان کے پاس کھانے کو کچھ نہیں اور تن کو ڈھانپنے کے لیے مناسب لباس تک نہ تھا۔اس کے باوجود فلسطینیوں نے اپنے ٹوٹے ہوئے گھروں اور بوسیدہ کیمپوں میں دیے جلائے، چراغاں کیا اور سجاوٹ کرکے اس نعمت خداوندی کا شکر ادا کیا۔
ایک فلسطینی بچے نے غیر ملکی میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ رمضان پچھلے رمضانوں سے یکسر مختلف ہے۔ ہم اپنے گھروں میں نہیں بلکہ کیمپوں میں رہ رہے ہیں اور سحر و افطار کے لیے راشن نہیں۔
حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کا اسرائیل کے یرغمالیوں کی رہائی کے بعد پھر سے جنگ مسلط کرنے کے تحفظات کے باوجود کہنا تھا کہ جنگ بندی کے لیے اب بھی تیار ہیں لیکن اسرائیل ڈھٹائی پر اترا ہوا ہے۔
یاد رہے کہ 7 اکتوبر سے جاری غزہ پر اسرائیلی بمباری میں شہید ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد 31 ہزار سے تجاوز کر گئی جب کہ 72 ہزار سے زائد زخمی ہیں۔ شہید اور زخمی ہونے والوں میں نصف تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔