اسلام آباد: اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججز کے خط پر چیف جسٹس نے دو ٹوک مؤقف اختیار کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ عدالتی امور میں ایگزیکٹو کی کسی قسم کی مداخلت برداشت نہیں کی جائے گی اور عدلیہ کی آزادی پر کسی صورت میں سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے جاری ہونے والے اعلامیے میں بتایا گیا ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان نے خط لکھنے والے ججز سے ملاقات کی اور اُن کے تحفظات سنے ہیں۔
اعلامیے میں بتایا گیا ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججز کا خط 25 مارچ 2024 کو چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو موصول ہوا، جس کے بعد چیف جسٹس نے تمام خط لکھنے والے ججز کی میٹنگ بلا کر اُن سے فردا فردا ملاقات کی اور تحفظات کو سنا۔
خط میں لگائے گئے الزامات کی شدت کو مدنظر رکھتے ہوئے 26 مارچ کو چیف جسٹس پاکستان کی رہائش گاہ پر افطار کے بعد اجلاس بلایا گیا، جس میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز شریک ہوئے۔ یہ میٹنگ ڈھائی گھنٹے تک جاری رہی۔
اس کے بعد چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل، وزیر قانون و انصاف، سینئر جج اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے وفد سے ملاقات بھی کی۔ یہ جج بار کونسل کے سینئر جج ہیں اور اسلام آباد میں موجود ہیں۔
چیف جسٹس نے دو ٹوک مؤقف اختیار کرتے ہوئے کہا کہ ججوں کے عدالتی امور میں ایگزیکٹو کی کسی قسم کی مداخلت برداشت نہیں کی جائے گی اور عدلیہ کی آزادی پر کسی صورت میں سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔
اعلامیے کے مطابق چیف جسٹس نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ ججز کے خط کے فوری بعد ملاقات کی، سپریم کورٹ کے تمام ججز نے اتفاق رائے سے چیف جسٹس کی وزیراعظم کے ساتھ ملاقات کا فیصلہ کیا۔ وزیراعظم چیف جسٹس ملاقات میں اعلیٰ سطح کے انکوائری کمیشن کے قیام کا فیصلہ کیا گیا۔
وزیراعظم اور چیف جسٹس کے درمیان ہونے والی ملاقات میں شہباز شریف نے عدالتی آزادی اور خودمختاری پر کوئی قدغن نہ آنے اور اس کے لیے تمام اقدامات کرنے کی یقین دہانی کرائی۔ وزیراعظم نے ملاقات میں کہا کہ فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے کے پیراگراف53 کے مطابق قانون سازی کی جائے گی۔
اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ وزیراعظم کیساتھ ملاقات میں چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کسی بھی صورت عدلیہ کی خودمختاری پر سمجھوتہ نہیں کریں گے، چیف جسٹس پاکستان اور جسٹس منصور علی شاہ نے کہا عدلیہ کی آزادی وہ بنیادی ستون ہے جس کے سبب قانون کی حکمرانی اور مضبوط جمہوریت قائم ہوتی ہے۔