اسلام آباد ہائیکورٹ نے جسٹس بابر ستار کو آڈیو لیکس کیس سے الگ کرنے سے متعلق اداروں کی درخواستیں پانچ پانچ لاکھ روپے جرمانے کے ساتھ خارج کردیں۔
ہائیکورٹ میں آڈیو لیکس کیس کی سماعت ہوئی۔
جسٹس بابر ستار نے کہا کہ آئی بی ، ایف آئی اے ، پی ٹی اے سیریس ادارے ہیں ان کی درخواستیں سن کر فیصلہ کروں گا، جن میں مجھ پر اعتراض کیا گیا ہے ، کس نے ان کو درخواستیں دائر کرنے کی اتھارٹی دی ہے؟
ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل نے جواب دیا کہ ایف آئی اے نے کیس دوسری عدالت منتقل کرنے کی استدعا کی ہے، اعتراض ہے کہ جسٹس بابر ستار سمیت چھ ججز نے انٹیلی جنس ایجنسیز کی عدلیہ میں مداخلت کا خط لکھا۔
جسٹس بابر ستار نے استفسار کیا کہ آئی ایس آئی کے معاملے سے ایف آئی اے کا کیا تعلق ہے ؟ کیا وہ آئی ایس آئی کی پراکسی ہے؟ کیا خط خفیہ اداروں کے حوالے سے ہے ؟ جسٹس شوکت صدیقی کے جو الزامات ہیں اس عدالت کے ججز ان کو سپورٹ کر رہے ہیں ، ججز نے کہا کہ وہ جسٹس شوکت صدیقی کے الزامات کی تحقیقات کرنے کو سپورٹ کرتے ہیں ، آپ نے خط کا جو حصہ پڑھا یہ آئی ایس آئی سے متعلق ہے ایف آئی اے سے متعلق نہیں ؟ کیا ایف آئی اے کا ججز کے گھروں میں خفیہ کیمرے لگانے سے کوئی تعلق ہے؟
ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل نے جواب دیا کہ نہیں ان کا تعلق تو نہیں ہے ، ایک پٹیشن میں ایجنسیز کے کردار کے حوالے سے بات کی گئی ہے اس لئے میں کہہ رہا ہوں۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ مفادات کے ٹکراؤ کی کیا آپ اس طرح تعریف کریں گے ؟ اگر ایگزیکٹو ججز کو بلیک میل کرے ؟ تو کیا ججز کا مفادات کا ٹکراؤ ہو جائے گا؟۔
عدالت نے ایف آئی اے کی متفرق درخواست جرمانے کیساتھ خارج کردی اور ڈی جی ایف آئی اے کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی کا عندیہ بھی دیا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) سے جواب طلب کرلیا کہ کس کی ہدایت پر متفرق درخواست دائر ہوئی اور جوائنٹ ڈائریکٹر جنرل آئی بی کو ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا۔
جسٹس بابر ستار نے پوچھا انٹیلی جنس بیورو کی متفرق درخواست کس کی منظوری سے دائر ہوئی ہے؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ جوائنٹ ڈائریکٹر جنرل انٹیلی جنس بیورو طارق محمود نے منظوری دی ہے۔
جسٹس بابر ستار نے پیمرا وکیل سے استفسار کیا کہ آپ نے ایک درخواست دائر کی ہے میں یہ کیس نا سنوں، یہ اعتراض کی گراؤنڈ کیسے ہو سکتی ہے ؟ آپ اسی فیصلے کی بنا پر اپنے دلائل دے سکتے ہیں۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے پیمرا اور پی ٹی اے سمیت تمام درخواستیں پانچ پانچ لاکھ روپے جرمانہ لگا کر خارج کردیں۔
عدالت نے عندیہ دیا کہ آئی بی ، ایف آئی اے ، پی ٹی اے اور پیمرا کی اتھارٹیز کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی بھی ہوسکتی ہے۔
اس موقع پر عدالت میں موجود وکلاء نے روسٹرم پر آکر جسٹس بابر ستار کی بہادری کو سراہا۔ اعتزاز احسن نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے آج کے حکم نامے نے میرا قد 20 فٹ اونچا کردیا۔
جسٹس بابر ستار نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل سے کہا کہ کیس دوسری عدالت منتقل کرنے کی متفرق درخواستیں دائر کرنے کا مقصد عدالتی کارروائی کو متاثر کرنا ہے، ہم اور آپ ایک ہی دنیا میں رہتے ہیں بالکل سمجھ رہے ہیں، اگر ایگزیکٹو ججز کو دھمکائے اور ججز توہینِ عدالت کی کارروائی شروع کریں تو وہ مفاد کا ٹکراؤ کیسے ہے ؟ کیا جج ذاتی مفاد کیلئے توہینِ عدالت کی کارروائی کرے گا؟ کیا عدالت آئی بی اور ایف آئی اے کے سارے کیسز سننا چھوڑ دے؟ آپ کی دلیل مان لی جائے تو پھر تو حکومت کے خلاف کوئی کیس ہی نہیں سننا چاہیے۔