لاہور: وزیر دفاع خواجہ آصف نے واضح کیا ہے کہ عزم استحکام آپریشن کی زیادہ تر کارروائیاں کے پی اور بلوچستان میں ہوں گی جس کا مقصد دہشت گردوں کی پناہ گاہیں ختم کرنا ہے۔
پارٹی سیکریٹریٹ ماڈل ٹاؤن لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ یہ آپریشن پچھلے آپریشنز سے تھوڑا مختلف ہے، اس آپریشن کا آغاز دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں سے شروع ہوگا۔ اس آپریشن کے کوئی سیاسی عزائم نہیں ہے بلکہ اس کا مقصد چند ماہ سے بڑھتی دہشت گردی کی لہر کو ختم کرنا ہے لہٰذا اس آپریشن میں سب کو سپورٹ کرنا چاہیے۔
خواجہ آصف نے کہا کہ کچھ عرصہ قبل حکومت کی جانب سے دہشت گردوں کو معافیاں دینے کا نقصان ہوا ہے، عسکری قیادت کے مطابق دہشتگردوں کو معافی دینے کا فیصلہ سول قیادت نے کیا تھا، اس معاملے پر عام بحث ہوگی اور اتفاق رائے پیدا کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان جب مرتب کیا گیا تھا اس وقت ملک کے مختلف علاقے دہشت گردوں کے قبضے میں تھے، اب کچھ علاقے ایسے ہیں جن میں تحریک طالبان کے دہشت گرد کاروائیاں کرتے ہیں لیکن پہلے والی صورتحال بہرحال نہیں ہے۔ ضیا الحق اور مشرف کی حکومت کی دو جنگیں ہم نے امریکا کے مفاد کے لیے لڑیں، یہ آپریشن چین یا کسی کے کہنے پر نہیں کر رہے بلکہ اپنی مرضی سے کر رہے ہیں۔
وزیر دفاع نے کہا کہ تین پارٹیوں کا وہاں ووٹ بینک یہ اس لیے تحفظات کر رہے ہیں لیکن قانونی اور آئین پہلوؤں کو دور کیا جائے گا، میری تو دراخوست ہوگی یہ قومی سطح پر سپورٹ کریں۔
خواجہ آصف نے کہا کہ ماضی میں دہشگردوں کے خلاف ضرب عزب سمیت دیگر آپریشن ہوئے، دسمبر 2016 میں سانحہ اے پی ایس ہوا اور اس وقت نیشنل ایکشن پلان بنایا گیا جبکہ اس وقت سوات سمیت کچھ علاقوں پر دہشت گردوں کا قبضہ تھا لیکن اب صورت حال اس وقت سے مختلف ہے، ایسا نہیں کہ کوئی طالبان کی رٹ ہو جس کی وجہ سے یہ پلان لانا پڑا۔
انہوں نے کہا کہ افواج پاکستان روزانہ کی بنیاد پر قربانیاں دے رہی ہے۔ عدلیہ، میڈیا، سیاستدان اور اداروں کو اس آپریشن پر متفق ہونا ہوگا۔ عدلیہ یا میڈیا اگر اس کوشش کو سپورٹ نہیں کرے گا تو آپریشن کے اصل مقاصد حاصل نہیں ہو سکتے ہیں۔
خواجہ آصف نے کہا کہ ایپکس کمیٹی کی جانب سے عزم استحکام آپریشن شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا جس میں تمام وزرائے اعلیٰ موخود تھے اور کسی نے مخالفت نہیں کی، مٹینگ میں چیف منسٹر کے پی موجود تھے کوئی اختلاف نہیں کیا۔ آج اس کو اسمبلی میں پیش کیا جائے گا اور بھرپور بحث کی جائے گی، اپوزیشن کے اس آپریشن سے متعلق تمام خدشات دور کیے جائیں گے لہٰذا اس آپریشن کو تمام ارباب اختیار کو سپورٹ کرنا چاہیے۔
وزیر دفاع نے واضح کیا کہ اس کمیٹی میں وزیر اعظم، چاروں وزیر اعلیٰ اور آرمی چیف سمیت دیگر موجود تھے لیکن کسی نے مخالفت نہیں کی۔ آج یہ کابینہ اجلاس میں آیا اور اس میں اتحادی جماعتوں کے سوالات کے جوابات دیے جائیں گے۔