کوپن ہیگن: ایک نئی عالمی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ زمین کا بڑھتا درجہ حرارت بھی ہماری رات کی نیند میں خوب خلل ڈال رہا ہے اور اس صدی کے آخر تک اگر انسانوں نے کاربن کے اخراج کو قابو نہ کیا تو صورتحال بدترین شکل اختیار کر لے گی۔
ڈینمارک کی یونیورسٹی آف کوپین ہیگن کے محققین نے 2015 سے 2017 کے درمیان 68 ممالک کے 47 ہزار سے زائد افراد کی کلائیوں میں بندھی نیند ٹریک کرنے والی پٹیوں سے حاصل ہونے والے ڈیٹا کا مطالعہ کیا تاکہ مستقبل میں ہماری نیند پر پڑنے والے اثرات کے متعلق بتا جا سکے۔
تحقیق میں محققین کو یہ بات معلوم ہوئی کہ بڑھتے درجہ حرارت کے سبب ہر سال دنیا بھر میں لوگوں کے نیند کا دورانیہ اوسطاً 44 گھنٹے کم ہو رہا ہے جو 2099 تک بڑھ کر 50 سے 58 گھنٹے تک پہنچ جائے گا۔ اس حساب سے کم ہونے والی یہ مقدار فی رات 10 منٹ سے تھوڑی کم بنتی ہے۔
تحقیق کے مطابق درجہ حرارت کے نیند کی مقدار پر منفی اثرات کی زد میں زیادہ تر وہ لوگ آئیں گے جن کا تعلق کم آمدنی والے مملک میں ہوتا ہے، ان کے ہمراہ خواتین اور بزرگ افراد بھی اس فہرست میں شامل ہیں۔
کُل ملا کر بڑی عمر کے افراد دیر سے سوئیں گے، جلدی اٹھیں گے اور گرم راتوں کے درمیان ان کی نیند کا دورانیہ کم ہو جائے گا جس کی وجہ سے ان کی جسمانی اور ذہنی صحت پر متعدد منفی اثرات پڑیں گے۔
بڑھتا ہوا عالمی درجہ حرارت ہماری نیند کی کل مقدار میں کمی کرے گا کیوں کہ جسم کے بنیادی درجہ حرارت کو ہماری نیند کے لیے کم ہونا پڑتا ہے۔
ایسا ہونا وقت کے ساتھ مشکل ہوتا جا رہا ہے کیوں کہ ہمارے اطراف موجود دنیا گرم سے گرم تر ہوتی جارہی ہے۔
تحقیق کے مصنف کیلٹن مائنر کا کہنا تھا کہ ہمارے اجسام، جسم کے بنیادی درجہ حرارت کو مستحکم رکھنے کے لیے بڑی حد تک صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ ایک ایسی چیز ہے جس پر ہماری زندگی کا انحصار ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہر رات یہ صلاحیت ہمارے شعور میں بات لائے بغیر بہترین کام کرتی ہے۔ یہ ہماری رگوں کو پھیلا کر ہمارے پیروں اور ہاتھوں میں خون کی روانی کو بڑھا دیتی ہے اور جسم کے درجہ حرارت کو اطراف کے ماحول میں نکال دیتی ہے۔
کیلٹن مائنر کا یہ بھی کہنا تھا کہ درجہ حرارت کی اس منتقلی کے لیے یہ بات لازمی ہے کہ ہمارے اطرف میں موجود ماحول کا درجہ حرارت ہمارے درجہ حرارت سے کم ہو