سری نگر: کنٹرول لائن کے دونوں جانب پاکستان اور دنیا بھر میں مقیم کشمیری آج یوم شہدائے کشمیر منارہے ہیں۔
13جولائی 1931 اورتحریک آزادی کشمیرکے دیگر تمام شہداءکو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے آج ” یوم شہداء“ منارہے ہیں ۔ان شہداءنے ہندوسامراج کے تسلط سے آزادی کیلئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔
کشمیر میڈیاسروس کے مطابق کل جماعتی حریت کانفرنس کی کال پر مقبوضہ جموں وکشمیر میں مکمل ہڑتال ہے۔
مقبوضہ کشمیر کی کٹھ پتلی حکومت نے نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی صدر محبوبہ مفتی کو”یوم شہدائے کشمیر “ پر سرینگر میں مزار شہداء نقشبند صاحب جانے سے روک دیا۔
محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ نے سماجی رابطوں کے پلیٹ فارم ”ایکس “ پر لکھا مجھے مزارِ شہداءجانے سے روکنے کے لیے میرے گھر کے دروازے ایک بار پھر بند کر دیے گئے ، ہمارے شہداکی قربانیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ کشمیریوں کے جذبے کو کچلا نہیں جا سکتا۔
انہوں نے کہا کہ لوگوں کو شہداء کو خراج عقیدت پیش کرنے سے روکنے کیلئے ظلم وجبر کا ایک اور دور ہے۔ کشمیر میں انتظامیہ شہداء کی قربانیوں کو نظر انداز کرنا چاہتی ہے۔
کل جماعتی حریت کانفرنس کے چیئرمین مسرت عالم بٹ، شبیر احمد شاہ اور نعیم احمد خان نے نئی دہلی کی تہاڑ جیل سے جاری ایک مشترکہ بیان میں کشمیریوں پر زور دیا کہ وہ 13 جولائی 1931 کے شہداءکے نقش قدم پر چلتے ہوئے بھارتی تسلط سے آزادی کے لیے اپنی جدوجہد مقصد کے حصول تک جاری رکھیں۔
یاد رہے کہ ڈوگرہ مہاراجہ ہری سنگھ کے فوجیوں نے 13 جولائی1931 کو 22 کشمیریوں کو گولیاں مار کر شہید کر دیا تھا۔ شہید ہونے والے یہ افراد ان ہزاروں لوگوں میں شامل تھے جو عبدالقدیر نامی ایک شخص کے خلاف مقدمے کی سماعت کے موقع پرسرینگر سینٹرل جیل کے باہر اکھٹے ہوئے تھے جنہوں نے کشمیری عوام کو ڈوگرہ حکمرانی کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کا کہا تھا۔
نماز ظہر کے وقت ایک کشمیری نوجوان نے جب اذان دینا شرو ع کی تو مہاراجہ کے فوجیوں نے اسے گولی مارکر شہید کر دیا۔اس کے بعد ایک اور شخص اذان پوری کرنے کےلئے کھڑا ہوا تو اسے بھی شہید کردیا گیا۔ یوں اذان مکمل ہونے تک 22کشمیریوں نے اپنی جانیں قربان کیں۔
یہ قتل عام ڈوگرہ حکومت کی تاریخ کا سیاہ ترین باب ہے۔ ڈوگرہ دور کو مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کی وجہ سے کشمیر کی تاریخ کا بدترین دور سمجھا جاتا ہے.