اسلام آبادہائی کورٹ نے کہا ہے کہ مظاہرین کو احتجاج کی مناسب جگہ دیں، دفعہ 144 پر عمل یقینی بنایا جائے۔
اسلام آباد کے تاجروں کی جانب سے اسلام آباد میں احتجاج رکوانے کے لیے دائر پٹیشن پر سماعت چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس عامر فاروق نے کی، جس میں عدالت نے سیکرٹری داخلہ کو ذاتی حیثیت میں طلب کیا۔
سماعت کا آغاز ہونے پر عدالت نے درخواست گزار کے وکیل سے استفسار کیا کہ کیا عجلت ہے، جس پر وکیل راجا انعام امین نے بتایا کہ 2 دن سے پورا اسلام آباد بند ہے، کاروبار بند ہے۔ بچوں کے امتحانات ہیں، ڈیڑھ لاکھ افراد کی روزانہ آمدورفت ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ میں صورتحال سمجھ سکتا ہوں، میں خود کنٹینرز کے درمیان سے گزر کر آیا ہوں۔
وکیل نے کہا کہ شنگھائی تعاون تنظیم کی کانفرنس بھی ہونے جا رہی ہے، جس پر عدالت نے کہا کہ اُس کانفرنس میں تو ابھی ہفتہ پڑا ہوا ہے۔ ایک چیز ہر ایک کو یاد رکھنی چاہیے کہ ہر شہری کے حقوق ہیں۔ ایک شہری کے حقوق کے ساتھ ساتھ دیگر کے حقوق کا خیال بھی رکھنا ہوتا ہے۔ امن و امان کی صورتحال برقرار رکھنا حکومت کا کام ہے۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد کو روسٹرم پر بلا لیا اور کہا کہ سیکرٹری داخلہ سے کہیں عدالت میں پیش ہو جائیں۔ پولیس کے بھی کسی ذمے دار افسر کو پیش ہونے کا کہہ دیں۔ وزیر داخلہ کو بلانا تو شاید مناسب نہ ہو لیکن اگر ہوں تو انہیں بھی بلا لیں۔ عدالت پی ٹی آئی کو کوئی ڈائریکشن نہیں دے سکتی۔ میں حکومتی اداروں کو آرڈر جاری کر سکتا ہوں کہ شہریوں کے حقوق کا تحفظ کریں۔ موبائل سگنل 2 دن سے بند ہیں کسی کی ایمرجنسی ہو جائے تو کیا ہو گا؟۔
بعد ازاں کیس کی دوبارہ سماعت ہوئی تو چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ نے پورا شہر کیوں بند کیا ہوا ہے، جس پر سیکرٹری داخلہ خرم علی آغا نے جواب دیا کہ ملائیشیا کے وزیراعظم گزشتہ روز اسلام آباد میں موجود تھے۔ اسلام آباد میں احتجاج کے لیے قانون موجود ہے۔ تین چار دن میں اہم سعودی وفد بھی پاکستان پہنچ رہا ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس ہونا پاکستان کے لیے باعث فخر ہے۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ آپ حکومت ہیں اور آپ کا کام برابری کے حقوق کو یقینی بنانا ہے۔ سرکار کا کام ہے کہ شہریوں کے برابر کے حقوق کو یقینی بنایا جائے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے سیکرٹری داخلہ کو فوری اقدامات کر کے حالات معمول پر لانے کی ہدایت کردی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ میں آج آرڈر جاری کروں گا اور کیس آئندہ ہفتے کے لیے دوبارہ رکھ رہا ہوں۔ مجھے امید ہے پیر کو ہم واپس آئیں تو حالات معمول کے مطابق ہوں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کسی کا یہ حق نہیں کہ وہ سڑک کے درمیان اکٹھے ہو جائیں اور میرا راستہ بند کر دیں۔ ان کو مناسب جگہ دیں جہاں احتجاج کریں یا جو مرضی کرنا ہو کر لیں۔ چیف جسٹس نے سیکرٹری داخلہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ آپ کا کام ہے اور آپ نے ہی کرنا ہے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ احتجاج بنیادی حق ہے، مظاہرین جس حوالے سے احتجاج کر رہے ہیں کریں۔ اس وقت شہر ایسا لگ رہا ہے حالت جنگ میں ہے۔ موبائل سروس بند ہے کوئی ایمرجنسی میں کسی سے رابطہ نہیں کر سکتا۔ آپ مناسب اقدامات کریں اور اسلام آباد کو کلیئر کریں۔ وفود پاکستان آ رہے ہیں کوئی نامناسب واقعہ ہوتا ہے تو وزارتِ داخلہ ذمے دار ہو گی۔ آپ نے فوج بھی طلب کی ہوئی ہے؟ آرمڈ فورسز سول حکام کی معاونت کرتی ہیں؟۔ دفعہ 144 نافذ ہے تو یقینی بنائیں کہ اس پر مکمل عملدرآمد ہو۔
سیکرٹری داخلہ نے بتایا کہ وزیرِداخلہ نے بڑی نرمی سے درخواست کی لیکن وزیراعلیٰ کے پی بضد ہیں۔ وزیراعلیٰ کے پی بھاری حکومتی مشینری کے ساتھ آ رہے ہیں۔ بہت سی سرکاری مشینری کو نقصان پہنچایا گیا ہے جلا دیا گیا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ جو احتجاج کر رہے ہیں وہ بھی پاکستان کے شہری ہیں آپ نے ان کی جانوں کا بھی تحفظ کرنا ہے۔ اگر ان کے اقدامات سے کسی اور کی جان کو خطرہ ہوتا ہے تو وہ غیرقانونی ہے۔ آپکے پاس بہت مشکل ٹاسک ہے لیکن آپ بہت اہم پوزیشن پر ہیں۔ وزیرداخلہ کو بتا دیں کہ آپ نے یہ بیلنس رکھ کر چلنا ہے۔ شہر میں کرفیو کی صورتحال ہے۔ آپ نے حالات معمول پر لانے کے لیے اقدامات کرنے ہیں۔ آپ نے یقینی بنانا ہے کہ اسلام آباد ایک پرامن شہر ہو۔ جو غیرملکی وفود آ رہے ہیں ہم اُنکو کیا دکھانے جا رہے ہیں۔ پاکستان کا کیا امیج جائے گا اگر ہم کنٹینرز سے بھرا اسلام آباد انہیں دکھائیں گے۔ اس عدالت کی ڈائریکشن کی ضرورت بھی نہیں یہ آپکا کام ہے۔
قبل ازیں وفاقی دارالحکومت کے تاجروں نے پی ٹی آئی کے احتجاج کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔
بلیو ایریا ٹریڈر یونین کی جانب سے اسلام آباد میں جاری احتجاج کو رکوانے کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک پٹیشن دائر کی گئی، جس میں عدالت سے استدعا کی گئی کہ اسلام آباد ہائی کورٹ آج ہی بینچ بنا کر حکومت کو حکم دے کہ اسلام آباد کو مظاہرین سے خالی کرایا جائے۔
پٹیشن میں مزید استدعا کی گئی ہے کہ اسلام آباد میں آرٹیکل 245 کا نفاذ ہونے کے بعد فوج پہنچ چکی ہے، اس لیے کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے بچنے کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ آج ہی حکم جاری کرے۔