کراچی:کراچی کی ڈسٹرکٹ جیل ملیر، جسے عرفِ عام میں “بچہ جیل” کہا جاتا ہے گزشتہ رات 216 قیدیوں کے فرار کا حیران کن واقعہ سامنے آیا ہے۔
واقعے کے دوران جیل کے اطراف اور اندر شدید فائرنگ کی آوازوں سے علاقہ لرز اٹھا، جس کے باعث شہریوں میں شدید خوف و ہراس پھیل گیا۔
ایس ایس پی ملیر کاشف آفتاب عباسی کے مطابق واقعہ کے فوراً بعد پولیس اور رینجرز کی بھاری نفری جیل پہنچ گئی، اور ملیر جیل، نیشنل ہائی وے، اطراف کے گوٹھوں اور رہائشی علاقوں کو مکمل طور پر گھیرے میں لے لیا گیا۔
نیشنل ہائی وے کو کچھ دیر کے لیے دونوں اطراف سے ٹریفک کے لیے بند کر دیا گیا تھا۔
ڈی آئی جی جیل حسن سہتو اور ڈی جی رینجرز سندھ میجر جنرل محمد شمریز نے خود جیل کا دورہ کیا اور سیکیورٹی صورتحال کا جائزہ لیا۔
رپورٹس کے مطابق علاقے گزشتہ روز متعدد مرتبہ آنے والے زلزلے مبینہ طور پر قیدیوں کے فرار کی وجہ بنا۔
بڑی تعداد میں قیدیوں کو بیرکوں سے باہر بٹھایا گیا تھا، قیدیوں نے موقع کا فائدہ اٹھایا اور جیل کو میدان جنگ بنا دیا۔
جیل انتظامیہ نے قیدیوں کو قابو کرنےکے لیے فائرنگ کی، حالات پر قابو پاتے پاتے ایف سی اہلکاروں سمیت پانچ اہلکار زخمی ہو گئے، اور 200 سے زائد قیدی جیل سے فرار ہو کر قریبی آبادیوں میں راہ فرار اختیار کی۔
وزیر داخلہ سندھ ضیاء الحسن لنجار کا کہنا تھا کہ دیوار کوئی توڑی نہیں گئی آٹھ سو سے زیادہ قیدی بیرکوں سے باہر تھے۔
وزیر داخلہ سندھ ضیاء الحسن لنجار اور وزیر جیل سندھ علی حسن زرداری نے بھی واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے آئی جی جیل اور ڈی آئی جیل سے فوری رپورٹ طلب کرلی ہے۔
اب تک کی پیش رفت کے مطابق 80 سے زائد قیدیوں کو دوبارہ گرفتار کیا جا چکا ہے، جبکہ دو قیدی ہلاک ہو گئے ہیں۔
پولیس حکام کے مطابق قیدیوں کے خلاف مقدمات درج کیے جا رہے ہیں، جن میں جیل توڑنے، پولیس پر حملے اور دیگر دفعات شامل ہوں گی، آپریشن کے دوران 9 مشبتہ افراد کو بھی حراست میں لیا گیا ہے۔
سیکیورٹی اداروں نے ریلوے اسٹیشن، بس اڈوں، اطراف کے گوٹھوں اور ہائی وے پر ناکہ بندی کر دی ہے۔ انٹیلی جنس کی بنیاد پر سرچنگ اور نگرانی کا عمل جاری ہے۔
اعلی پولیس افسران کی ہدایت پر ملیر کے مختلف علاقوں میں لانڈھی ملیر بچہ جیل سے فرار قیدیوں کی گرفتاری کے لیے مساجد میں اعلانات کا سلسلہ شروع کر دیا گیا۔
ایس ایس پی ملیر کے مطابق اب تک کئی قیدیوں کو سکھن تھانے کی حدود اور کوہی گوٹھ سے گرفتار کیا گیا ہے۔
ایک غیر معمولی اور جذباتی واقعہ بھی سامنے آیا، جہاں فرار ہونے والے ایک قیدی کو اُس کی والدہ خود واپس جیل چھوڑ گئیں۔ سوشل میڈیا پر اس اقدام کو سراہا جا رہا ہے۔
قیدیوں کو فرار ہونے سے روکنے کی کوشش میں پولیس اہلکار سکندر ولد امام بخش اور شمریز زخمی ہوئے، جنہیں اسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔
جیل حکام کے مطابق ملیر جیل میں تقریباً 6000 قیدی موجود ہیں، جن کی تفصیلی گنتی اور ریکارڈ چیکنگ کا عمل جاری ہے تاکہ درست اندازہ ہو سکے کہ کتنے قیدی اب بھی مفرور ہیں۔
وزیر داخلہ سندھ نے ہدایت دی ہے کہ غفلت برتنے والے افسران کا تعین کیا جائے، تمام ادارے مربوط اور مؤثر انداز میں کارروائی کریں، انٹیلیجنس، نگرانی اور ریڈز کی بنیاد پر تمام قیدیوں کو ہر حال میں گرفتار کیا جائے۔
حکام کے مطابق اس وقت صورتحال کنٹرول میں ہے، تاہم تحقیقات کا عمل جاری ہے۔ ابتدائی رپورٹ میں سیکیورٹی میں واضح خامیوں کی نشاندہی کی جا رہی ہے، جس پر اعلیٰ سطح پر کارروائی متوقع ہے۔