پاکستان میں آبادی میں خطرناک حد تک تیزی سے اضافے نے تعلیم، صحت اور معیشت پر دباؤ بڑھا دیا ہے، جس پر قابو پانے کےلیے حکومت نے شرح پیدائش کم کرنے کو قومی ترجیح قرار دیا ہے۔
ورلڈ پاپولیشن ڈے کے موقع پر وزارت صحت کی کانفرنس میں ماہرین اور وفاقی وزیر صحت سید مصطفیٰ کمال نے موجودہ صورتحال کو نیشنل کرائسز قرار دیتے ہوئے فوری اقدامات کی ضرورت پر زور دیا۔
اسلام آباد میں وزارت صحت کے زیر اہتمام ورلڈ پاپولیشن ڈے کے حوالے سے اہم کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں ملک بھر سے صحت اور آبادی کے ماہرین کے ساتھ ساتھ مذہبی اسکالرز نے بھی شرکت کی۔ ترجمان وزارت صحت کے مطابق کانفرنس کا مقصد آبادی میں بے تحاشا اضافے سے پیدا ہونے والے مسائل کا حل تلاش کرنا اور عوام میں آگاہی پیدا کرنا ہے۔
کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر صحت سید مصطفیٰ کمال نے خبردار کیا کہ پاکستان میں آبادی میں ہر سال 61 لاکھ سے زائد افراد کا اضافہ ہو رہا ہے جو کہ انتہائی تشویشناک ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان دنیا کا پانچواں بڑا ملک بن چکا ہے اور اگر یہی رفتار رہی تو پانچ سال بعد ہم آبادی کے لحاظ سے انڈونیشیا کو بھی پیچھے چھوڑ دیں گے اور دنیا کا چوتھا بڑا ملک بن جائیں گے۔
سید مصطفیٰ کمال نے کہا کہ جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ شرح پیدائش پاکستان میں ہے اور آبادی میں یہ تیزی سے اضافہ ملک کے انفراسٹرکچر کو تباہ کر رہا ہے۔ تعلیم، صحت اور روزگار کا نظام اس بوجھ کو برداشت نہیں کر پا رہا، جبکہ ڈھائی کروڑ بچے ابھی تک اسکولوں سے باہر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ فیملی سائز کم کرنا اب قومی ترجیح ہونی چاہیے اور شرح پیدائش کو 3.6 سے کم کر کے 2.0 پر لانا ناگزیر ہو چکا ہے۔
وفاقی وزیر صحت کے مطابق آبادی کے بے قابو پھیلاؤ نے قومی منصوبہ بندی کو خطرے میں ڈال دیا ہے اور اگر اس پر قابو نہ پایا گیا تو ترقی کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکے گا۔ کانفرنس میں ماہرین نے بھی رائے دی کہ آبادی پر کنٹرول کے لیے عوام میں آگاہی مہم کے ساتھ ساتھ عملی اقدامات ناگزیر ہیں تاکہ آنے والی نسلوں کے لیے تعلیم، صحت اور روزگار کے بہتر مواقع یقینی بنائے جا سکیں۔