غزہ میں اسرائیل کے جاری محاصرے اور حملوں کے باعث بدترین انسانی بحران پیدا ہو چکا ہے، جہاں غذائی قلت کی وجہ سے پانچ میں سے ایک بچہ غذائی کمی کا شکار ہے۔
اقوام متحدہ، بین الاقوامی امدادی تنظیمیں، اور خود مقامی افراد اس صورتحال کو “انسانی پیدا کردہ قحط” قرار دے رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کی فلسطینی پناہ گزین ایجنسی (انروا) کے کمشنر جنرل فلپ لازارینی نے کہا ہے کہ غزہ میں لوگ نہ زندہ ہیں نہ مردہ بلکہ ’’چلتی پھرتی لاشیں‘‘ بن چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اب تک 100 سے زائد افراد صرف بھوک کی وجہ سے شہید ہو چکے ہیں، جن میں زیادہ تر بچے شامل ہیں۔
انہوں نے اسرائیل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ انسانی امداد کی راہ میں حائل رکاوٹیں ختم کرے تاکہ خوراک، دوا اور پینے کا پانی بروقت غزہ میں پہنچ سکے۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق، مقامی شہری ہانا المدہون نے بتایا کہ مارکیٹوں میں کھانا دستیاب نہیں اور اگر ہو بھی تو وہ اتنا مہنگا ہے کہ لوگ سونا اور ذاتی سامان بیچ کر آٹا خریدنے پر مجبور ہیں۔
ایک ماں نے بتایا کہ اس نے بچوں کو کچرے کے ڈھیر سے کھانے کے ٹکڑے تلاش کرتے دیکھا ہے، جب کہ ایک امدادی کارکن طہانی شہادہ نے کہا کہ ’’کھانا پکانا اور نہانا بھی اب پرُتعیش کام بن چکے ہیں۔‘‘
ڈبلیو ایچ او کے سربراہ نے کہا ہے کہ غزہ میں بھوک کی ایسی صورتحال پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی اور یہ ’’انسانوں کی بنائی ہوئی قحط‘‘ ہے۔
دیئرالبلح سے حاملہ خاتون ولا فتحی نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ دعا کر رہی ہیں کہ ان کا بچہ ان حالات میں دنیا میں نہ آئے، کیونکہ یہ حالات ’’ناقابلِ تصور آفت‘‘ سے کم نہیں۔
غزہ میں امدادی مراکز کے قریب اسرائیلی حملوں میں صرف گزشتہ دو ماہ میں ایک ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ امداد کے لیے جانے والے عام شہریوں پر گولیاں چلائی جا رہی ہیں، جس کی وجہ سے بہت سے لوگ خوف کے مارے امدادی مراکز تک جانے سے بھی قاصر ہیں۔
برطانوی فلاحی ادارے سے وابستہ ایک ڈاکٹر نے کہا کہ غزہ قحط کے قریب نہیں بلکہ “قحط زدہ” ہو چکا ہے.