ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹس اسلام آباد میں قائد اعظم یونیورسٹی کے ہاسٹل سے گرفتار طلبہ کے کیس کی سماعت ہوئی، جوڈیشل مجسٹریٹ مرید عباس نے کیس کی سماعت کی جب کہ کچہری میں وکلا نے یونیورسٹی کے سیکیورٹی انچارج کرنل ریٹائرڈ ندیم پر تشدد کیا۔
طالب علموں کے وکیل ریاست علی آزاد کیجانب سے ایف آئی آر کا متن پڑھا گیا، 29 طالب علم اسوقت پولیس کی حراست میں ہیں، جو جو دفعات لگائی گئی ان میں سے بس ایک دفعہ ناقابل ضمانت ہے۔
ریاست علی آزاد کے دلائل مکمل ہونے کے بعد صدر ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن نعیم گجر نے دلائل دیے اور مؤقف اپنایا کہ کیا یونیورسٹی پر بھی کوئی قانون لاگو ہوتا ہے؟
پہلےایڈمیشن دیا گیا کمرے الارٹ کئے گئے، کرائے دار کو بھی نکالنے کیلئے نوٹس دینا ہوتا ہے، ان بچوں میں کل کے وکیل، جج، سیاستدان موجود ہیں، یہ قانون کیساتھ کھلواڑ ہورہا ہے۔
وکلاء صفائی نے کہا کہ کیا ملک میں مارشل لاء لگا ہوا ہے؟ ایک ریٹائرڈ کرنل اٹھ کر مستقبل پر پرچہ کاٹ دیتا ہے، ہم کل تھانے کے باہر کھڑے رہے ہمیں وکلاء سے ملنے نہیں دیا گیا، پولیس افسر نے کہا بلوچ طلبہ غیر قانونی ہیں، کیا یہ ریاست کا چہرہ ہے طالب علموں پر ڈکیتی کا پرچہ،
وکیل ایمان مزاری نے کہا کہ پولیس والوں نے عدالت کا احترام نہیں کیا اور ملزمان کو عدالت کے باہر سے واپس لے گئے، پولیس والوں نے وکلاء پر گاڑی چڑھانے کی کوشش کی۔
یونیورسٹی وکیل راجہ ظہور الحسن نے کہا کہ یہ طلباء نہیں آوٹ سائیڈر ہیں، یونیورسٹی میں ان لوگوں کیوجہ سے منشیات چلتی ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ ان طالب علموں کی درخواست خارج کر چکی ہے، ان گرفتار طلباء میں کوئی بھی اب یونیورسٹی کا طالب ہے تو ہم استدعا کریں گے اسے ڈسچارج کردیں۔
راجہ ظہور الحسن نے کہا کہ یونیورسٹی کے وکیل راجہ ظہور الحسن کے دلائل کے دوران طلباء نے شیم شیم کے نعرے لگائے، عدالت نے نعرے بازی پر اظہار برہمی کیا۔
پراسیکوشن کیجانب سے ملزمان کے 10 روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی گئی، عدالت نے دلائل مکمل ہونے پر جسمانی ریمانڈ پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔
یونیورسٹی کے سیکورٹی انچارج کرنل ریٹائرڈ ندیم اور وکلاء سماعت مکمل ہونے پر کورٹ سے باہر نکل رہے تھے کہ کچہری میں وکلا نے یونیورسٹی کے سیکورٹی انچارج پر تشدد کیا۔
انہوں نے کرنل ریٹائرڈ ندیم کو تشدد کا نشانہ بنایا، اس کے علاوہ یونیورسٹی کے وکیل راجہ ظہور الحسن کے بیٹے کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔