0

دریائے چناب، راوی اور ستلج بپھر گئے، پنجاب میں سیلاب سے بڑی تباہی، کئی اضلاع زیرآب، اموات 20 ہوگئیں

بھارت کی جانب سے پانی چھوڑے جانے اور شدید بارشوں کے باعث دریائے راوی، چناب اور ستلج بھپر گئے جس کے باعث سیلاب نے پنجاب میں تباہی مچا دی، کئی اضلاع زیر آب آگئے اور کھڑی فصلیں تباہ ہوگئیں جبکہ مال مویشی سیلاب کی نذر ہوگئے، اب تک 20 افراد جاں بحق ہوگئے۔

نیشنل ایمرجنسی آپریشن سینٹر (NEOC) نے دریائے چناب، راوی اور ستلج میں پانی کی سطح بلند ہونے پر شدید سیلابی الرٹ جاری کر رکھا ہے جبکہ حکومت پنجاب کی جانب سے ریسکیو اور ریلیف آپریشن جاری ہے۔

فلڈ فار کاسٹنگ ڈویژن کے مطابق، دریائے راوی میں شاہدرہ کے مقام پر پانی کی سطح خطرناک حد تک بلند رہی، جہاں کل شام 6 بجے تک بہاؤ 2 لاکھ 17 ہزار 660 کیوسک ریکارڈ کیا گیا۔

بلوکی بیراج پر بھی پانی کی سطح 1 لاکھ 4 ہزار 435 کیوسک تک جا پہنچی، جبکہ جسر کے مقام پر 99 ہزار 470 کیوسک کا درمیانے درجے کا سیلاب دیکھا گیا۔

ادھر دریائے ستلج میں گنڈا سنگھ والا کے مقام پر غیر معمولی سیلابی صورتحال ہے، جہاں پانی کی سطح 2 لاکھ 61 ہزار 53 کیوسک تک پہنچ گئی۔ ہیڈ سلیمانکی پر درمیانے درجے کا سیلاب جاری ہے اور ہیڈ اسلام پر نچلے درجے کا سیلاب ہے۔

سب سے خطرناک صورتحال اس وقت دریائے چناب میں ہے، جہاں قادرآباد کے مقام پر پانی کی سطح کچھ کمی کے بعد 5 لاکھ 34 ہزار 409 کیوسک ریکارڈ کی گئی، جو قبل ازیں 6 لاکھ 60 ہزار کیوسک سے تجاوز کر گئی تھی۔

ہیڈ خانکی پر اونچے درجے اور ہیڈ تریمو پر پانی کی سطح 96 ہزار 594 کیوسک تک محدود رہی۔

ڈی جی پی ڈی ایم اے کی بریفنگ

صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) کے ڈائریکٹر جنرل عرفان علی کاٹھیا نے کہا ہے کہ لاہور میں دریائے راوی کے مقام شاہدرہ سے گزرنے والا دو لاکھ 20 ہزار کیوسک کا ریلا 1988 کے بعد سب سے بڑا تھا، تاہم خوش قسمتی سے شہر میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔

ان کے مطابق اب شاہدرہ کے مقام پر پانی کی سطح بتدریج کم ہو رہی ہے اور آئندہ چند گھنٹوں میں مزید کمی متوقع ہے۔

ڈی جی پی ڈی ایم اے نے بتایا کہ لاہور میں سیلابی پانی 9 مقامات پر داخل ہوا، جہاں متاثرہ افراد کو بروقت ریسکیو کر لیا گیا۔ اس وقت بلوکی کے مقام پر ایک لاکھ 47 ہزار کیوسک پانی گزر رہا ہے اور یہ پانی ڈاؤن اسٹریم سے آگے دریائے راوی میں شامل ہوگا۔ حکومت نے دریا کے گزرگاہوں میں بسنے والے لوگوں کو سختی سے انخلا کا حکم دیا ہے اور بعض مقامات پر طاقت کا استعمال کرکے بھی انخلا کروایا گیا ہے۔

عرفان کاٹھیا نے کہا کہ انڈیا کی جانب سے مادھوپور ہیڈ ورکس سے مسلسل 80 ہزار کیوسک پانی آرہا ہے، جو لاہور شاہدرہ سے گزر کر آگے چنیوٹ اور پھر ریواز برج تک پہنچے گا۔ ان کے بقول ریواز برج اس وقت حکومت کے لیے سب سے بڑی تشویش ہے اور اس مقام پر بند توڑنے کے بارے میں غور کیا جارہا ہے تاکہ جھنگ کو محفوظ رکھا جا سکے۔ اسی طرح تریمیمو کے بعد پانی ہیڈ محمد والا اور پھر ملتان کے نظام میں شامل ہوگا۔

ڈی جی پی ڈی ایم اے کے مطابق پچھلے چار روز سے قصور کے قریب دریائے ستلج میں دو لاکھ سے زائد کیوسک پانی کا بہاؤ جاری ہے، جس کے باعث سلیمانکی کے مقام پر صورتحال خطرناک ہوتی جا رہی ہے۔ صوبے میں اب تک ایک ہزار سات سو انہتر مواضعات زیر آب آچکے ہیں، چودہ ہزار سے زائد افراد براہِ راست متاثر ہوئے ہیں جبکہ چار ہزار سے زیادہ لوگ کیمپوں میں موجود ہیں۔ مجموعی طور پر اب تک چار لاکھ سے زائد افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ پنجاب میں سیلاب کے باعث اب تک 20 اموات ہوچکی ہیں اور خدشہ ہے کہ متاثرین کی تعداد میں مزید اضافہ ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ جب تک یہ پانی سندھ میں داخل نہیں ہوتا پنجاب ہائی الرٹ پر ہے اور سندھ حکومت کو پہلے ہی آگاہ کر دیا گیا ہے۔

عرفان علی کاٹھیا نے بتایا کہ کوہ سلیمان پر بارشوں کا نیا سلسلہ شروع ہو رہا ہے جس سے رود کوہیوں میں پانی کا بہاؤ بڑھے گا۔ ان کے مطابق بھارت نے پانی کے اخراج کے بارے میں بروقت معلومات فراہم نہیں کیں جس سے نقصان میں اضافہ ہوا، اور اسی تاخیر پر بین الاقوامی میڈیا نے بھی بھارت پر تنقید کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ فلڈ پلان ایکٹ کے تحت اب آبی گزرگاہوں میں موجود تمام غیرقانونی تعمیرات کو خالی کرایا جائے گا تاکہ مستقبل میں بڑے نقصانات سے بچا جاسکے۔ شہریوں سے اپیل ہے کہ وہ فوری طور پر دریا کے راستوں کو خالی کردیں تاکہ ریسکیو اور ریلیف کے اقدامات موثر انداز میں جاری رکھے جا سکیں۔

ملتان کے ہیڈ محمد والا پر کنٹرولڈ شگاف ڈالنے کا فیصلہ

ملتان میں دریائے چناب کی بپھری موجوں کے باعث اونچے درجے کے سیلاب کا خطرہ بڑھ گیا ہے، جس کے پیش نظر ضلعی انتظامیہ نے ہنگامی حفاظتی اقدامات شروع کر دیے ہیں۔

ڈپٹی کمشنر وسیم حامد کے مطابق، شہری آبادی کو ممکنہ تباہی سے بچانے کے لیے ہیڈ محمد والا کے مقام پر کنٹرولڈ شگاف ڈالنے کا فیصلہ کیا گیا ہے تاکہ سیلابی دباؤ کو کم کیا جا سکے۔ ان کے مطابق متاثرہ علاقوں سے اب تک 60 فیصد تک آبادی کا انخلا مکمل کر لیا گیا ہے، جبکہ باقی افراد کو نکالنے کے لیے بھی ریسکیو آپریشن جاری ہے۔

این ای او سی کے مطابق 31 اگست کو ہیڈ تریمو پر پانی کا بہاؤ 7 سے 8 لاکھ کیوسک تک پہنچنے کا خدشہ ہے، جو جھنگ اور گرد و نواح کے علاقوں کو شدید متاثر کر سکتا ہے۔

3 ستمبر تک سیلابی ریلا پنجند تک پہنچے گا، جہاں 6.5 سے 7 لاکھ کیوسک کے درمیان بہاؤ متوقع ہے

شہریوں کا انخلاء

پنجاب میں حالیہ سیلاب کے باعث متاثرہ علاقوں میں ریسکیو اور ریلیف کی سرگرمیاں بھرپور انداز میں جاری ہیں۔

دریائے چناب، راوی، ستلج، جہلم اور سندھ سے ملحقہ علاقوں سے 3 ہزار سے زائد افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا جا چکا ہے، جبکہ مجموعی طور پر صوبے بھر سے 45 ہزار سے زائد افراد کا انخلاء ممکن بنایا گیا ہے۔

سب سے زیادہ متاثرہ اضلاع میں گجرات، گجرانوالہ، منڈی بہاالدین، حافظ آباد، نارووال، شیخوپورہ، ننکانہ صاحب، قصور، اوکاڑہ اور پاکپتن شامل ہیں۔ پنجاب کے 30 اضلاع میں جاری ٹرانسپورٹیشن آپریشن میں 669 بوٹس اور 2861 ریسکیورز شریک ہیں۔

منڈی بہاالدین کے علاقے کالا شیدیاں سے 816 اور حافظ آباد کی تحصیل پنڈی بھٹیاں سے گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران 625 افراد کو ریسکیو کیا گیا۔

ننکانہ صاحب میں 1553 افراد کو سیلابی پانی سے بحفاظت نکالا گیا، جن میں 568 خواتین اور 318 بچے بھی شامل ہیں۔

متاثرہ دیہاتوں سے 2392 مویشیوں کو بھی محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا۔ ننکانہ صاحب میں ریسکیو آپریشن کے لیے 14 بوٹس، 93 ریسکیو ورکرز اور 122 رضاکار سرگرم عمل رہے۔

سیلاب متاثرین کے لیے قائم 7 فلڈ ریلیف اور شیلٹر کیمپس میں وزیراعلیٰ مریم نواز شریف کی ہدایت پر علاج، خوراک اور دیگر سہولیات کے بہترین انتظامات کیے گئے ہیں تاکہ متاثرین کو ہر ممکن ریلیف فراہم کیا جا سکے۔

متاثرہ علاقوں اور شہریوں کا تعداد

ماہرین کی رائے کے مطابق وزیراعلی مریم نواز شریف کے تجاوزات کے خلاف بروقت آپریشن کا فائدہ سیلاب کی شدید صورتحال میں عوام کو جانی نقصانات سے بچانے میں ہوا ہے۔

چناب، ستلج اور راوی میں سیلاب سے پنجاب کے کل 1 ہزار 432 موضع جات کے 12 لاکھ 36 ہزار 824 شہری متاثر ہوئے۔

دریائے چناب کے کنارے آباد 991 موضع جات اور 7 لاکھ 69 ہزار 281 شہری متاثر ہوئے۔

دریائے راوی کے کنارے آباد 80 موضع جات اور 74 ہزار 775 شہری متاثر ہوئے۔

دریائے ستلج کے کنارے آباد 361 موضع جات اور 3 لاکھ 92 ہزار 768 شہری متاثر ہوئے۔

سیلاب کے باعث 2 لاکھ 48 ہزار 86 لوگوں کو گھر بار چھوڑنا پڑا، جنہیں محفوظ مقامات پر منتقل کیا جا چکا ہے۔ ایک لاکھ 48 ہزار سے زائد مال مویشیوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا، 234 جانوروں کے علاج کے کیمپ بھی کام کر رہے ہیں۔

غیر معمولی سیلاب میں ایک بھی شہری کا جاں بحق نہ ہونا مینجمنٹ کی اعلیٰ مثال ہے، 694 ریلیف کیمپ اور 265 میڈیکل کیمپس فیلڈ میں کام کر رہے ہیں۔

عوام کیلیے ہدایات

ریلیف کمشنر پنجاب نبیل جاوید نے کمشنرز و ڈپٹی کمشنرز کو فیلڈ میں موجود رہنے کی ہدایات کرتے ہوئے کہا ہے کہ پی ڈی ایم اے صوبے بھر میں مسلسل کوارڈینیشن کو یقینی بنا رہا ہے۔ ڈپٹی کمشنرز اور دیگر افسران فیلڈ میں موجود رہیں۔

ریلیف کمشنر پنجاب کا کہنا تھا کہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں سے لوگوں کے انخلاء کو جلد از جلد یقینی بنائیں، عوام کے جان و مال کی حفاظت اولین ترجیح اور ذمہ داری ہے۔ تمام متعلقہ ریسکیو و ریلیف ادارے ہائی الرٹ رہیں، کوتاہی کی گنجائش نہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں