پاکستانی سفیر عاصم افتخار نے کہا ہے کہ سلامتی کونسل غزہ میں جاری خونریزی روکنے میں ایک بار پھر ناکام رہی ہے۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ویٹو (Veto) مباحثہ (فلسطینی مسئلہ) کے دوران پاکستان کے مستقل مندوب سفیر عاصم افتخار احمد نے اپنے بیان میں کہا کہ ہم اپنے آپ کو اُس بیان کے ساتھ منسلک کرتے ہیں جو ڈنمارک کے مستقل نمائندے نے سلامتی کونسل کے 10 منتخب ارکان، بشمول پاکستان کی جانب سے پیش کیا۔ ا ن ارکان نے اُس مسودۂ قرار داد کو مشترکہ طور پر پیش کیا تھا جسے ویٹو (Veto) کر دیا گیا اور یہی وجہ ہے کہ ہم آج یہاں موجود ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم ڈنمارک کے کردار کی دل سے قدر کرتے ہیں جس نے ای-10 کی ہم آہنگی میں قائدانہ کردار ادا کیا۔
پاکستانی سفیر نے اپنے بیان میں کہا کہ ہم ایسے وقت پر جمع ہوئے ہیں جب گہری تشویش اور کرب کی کیفیت ہے۔ سلامتی کونسل، جسے امن کے تحفظ کی بنیادی ذمہ داری سونپی گئی ہے، ایک بار پھر اُس وقت عمل کرنے میں ناکام رہی جب غزہ کو اس کی سب سے زیادہ ضرورت تھی۔
عاصم افتخار کا کہنا تھا کہ ایک قرار داد، جس کا مقصد خونریزی کو روکنا اور انسانی امداد پہنچانا تھا، کو روک دیا گیا اور یوں لاکھوں انسان غیر انسانی حالت میں تنہا چھوڑ دیے گئے۔
انہوں نے کہا کہ سلامتی کونسل کے منتخب 10 اراکین کے لیے یہ محض معمول کی سفارت کاری نہیں تھی۔ یہ ایک فوری کوشش تھی ایک ایسی قوم کی پکار کا جواب دینے کی جو بمباری، ملبے، قحط اور ناامیدی میں پھنس چکی ہے۔ اس حوالے سے پیش رفت میں ناکامی انتہائی مایوس کُن تھی، لیکن ایک ایوان میں جمود کا مطلب یہ نہیں کہ اقوام متحدہ اور بین الاقوامی برادری کے تمام ادارے بھی مفلوج ہو جائیں۔
پاکستانی مندوب نے کہا کہ حقیقت نہایت کڑوی ہے۔ غزہ کو چُن چُن کر تباہ کر دیا گیا ہے۔ خاندان ٹوٹے ہوئے کنکریٹ کے ڈھانچوں تلے سہمے بیٹھے ہیں اور ان بچوں کو ڈھونڈ رہے ہیں جو کبھی واپس نہیں آئیں گے۔ وہاں بھوک ہر گلی میں منڈلا رہی ہے۔ قحط پہلے ہی غزہ شہر کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے اور اب خان یونس اور دیر البلح کو نگلنے کی دھمکی دے رہا ہے۔
سفیر عاصم افتخار نے کہا کہ 66 ہزار سے زائد فلسطینی ، جن کی بھاری اکثریت عورتیں اور بچے ہیں شہید ہو چکے ہیں۔ گھر، اسکول اور اسپتال دانستہ طور پر مٹا دیے گئے ہیں۔ یہ جنگ نہیں ہے، یہ ایک قوم کے مستقبل کو مٹا دینے کا عمل ہے۔ قابض طاقت اسرائیل کو اس پر مکمل طور پر جواب دہ ٹھہرایا جانا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ فلسطین کا دکھ بجا طور پر اس سال کی جنرل ڈیبیٹ کا مرکزی موضوع رہا ہے۔ اس تباہی کے درمیان، ضمیر کی آوازیں مزید بلند ہوئیں، دو ریاستی حل کانفرنس کا انعقاد، مزید ممالک کی جانب سے فلسطین کو تسلیم کرنا اور دنیا بھر سے جنگ بندی اور فلسطینی مسئلے کے پائیدار حل کے بڑھتے ہوئے مطالبات نے اس گھٹا ٹوپ اندھیروں میں امید کی کرنیں فراہم کیں۔
پاکستانی سفیر نے کہا کہ صدر ٹرمپ کی عرب اور او آئی سی رہنماؤں کے ساتھ حالیہ مشاورت اور امریکا کی جانب سے ایک منصوبے کا اعلان، قابلِ ذکر پیش رفت ہے جس کا دنیا بھر میں خیر مقدم کیا گیا ہے۔ ہمیں محتاط لیکن مخلصانہ امید ہے کہ ایسے اقدامات وہ سب کچھ فراہم کر سکیں گے جس کی فوری ضرورت ہے، مثلاً فوری جنگ بندی، جنگ کا خاتمہ، بلا رکاوٹ انسانی امداد کی فراہمی اور سب سے بڑھ کر فلسطینی ریاست کے قیام کی جانب ایک معتبر سیاسی افق۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان ان مشاورتوں کا حصہ ہونے کے ناتے یہ یقینی بنانے کے لیے کام کرے گا کہ کوششوں کو وعدوں سے نہیں بلکہ نتائج سے پرکھا جائے۔ قتل و غارت کو روکنا، قبضے کا خاتمہ، خاندانوں کو دوبارہ ملانا، غزہ کی تعمیر نو اور فلسطینی عوام کو تحفظ اور عزتِ نفس کی ضمانت دینا ترجیحات میں شامل ہے۔
سفیر عاصم افتخار کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں میں یہ نشاندہی کرنا چاہوں گا کہ ایک مشترکہ اعلامیے میں اردن، متحدہ عرب امارات، انڈونیشیا، پاکستان، ترکی، سعودی عرب، قطر اور مصر کے وزرائے خارجہ نے صدر ٹرمپ کی کوششوں کا خیر مقدم کیا، جن میں اُن کا یہ اعلان بھی شامل ہے کہ وہ مغربی کنارے کے انضمام کی اجازت نہیں دیں گے۔
اس سلسلے میں اعلامیے میں اس بات کا اعادہ کیا گیا کہ وہ امریکا کے ساتھ مل کر غزہ میں جنگ کے خاتمے کے لیے ایک جامع معاہدے پر کام کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔ ایسا معاہدہ جو انسانی امداد کی بلا رکاوٹ اور وافر ترسیل کو یقینی بنائے، فلسطینیوں کی جبری بے دخلی کو روکے، یرغمالیوں کی رہائی کو ممکن بنائے، اسرائیلی انخلا کو مکمل طور پر یقینی بنائے، غزہ کی تعمیر نو کرے اور دو ریاستی حل کی بنیاد پر ایک منصفانہ امن کی راہ ہموار کرے، جس کے تحت غزہ کو مکمل طور پر مغربی کنارے کے ساتھ ایک فلسطینی ریاست میں بین الاقوامی قانون کے مطابق ضم کیا جائے۔ یہی خطے میں پائیدار استحکام اور سلامتی حاصل کرنے کی کلید ہے۔
پاکستانی مندوب کے مطابق ان عہد و پیمان کے مطابق آج اس فورم سے ہم 5 فوری مطالبات پیش کرتے ہیں:
اوّل: تمام مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں فوری، غیر مشروط اور مستقل جنگ بندی؛
دوئم: ناکا بندی کا خاتمہ اور انسانی امداد تک بلا رکاوٹ رسائی؛
سوئم: تمام یرغمالیوں اور فلسطینی قیدیوں کی رہائی؛
چہارم: جبری بے دخلی، بستیوں کی تعمیر اور الحاق کے کسی بھی منصوبے کا مکمل خاتمہ؛
پنجم: ایک معتبر اور مقررہ سیاسی عمل، جو بین الاقوامی قانونی جواز کے مطابق ہو، تاکہ ایک آزاد، خودمختار اور متصل ریاستِ فلسطین قائم کی جا سکے جو 1967ء سے پہلے کی سرحدوں پر مبنی ہو اور جس کا دارالحکومت القدس الشریف ہو۔
انہوں نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ فلسطینی عوام اپنی تقدیر کے خود مالک ہیں اور ان کی تقدیر آزادی ہے۔ فلسطینیوں کو اب مزید ان کے حقِ خود ارادیت سے محروم نہیں رکھا جا سکتا۔ امن کو اب مزید مؤخر نہیں کیا جا سکتا۔
پاکستانی مندوب کا کہنا تھا کہ پاکستان فلسطینی عوام کے ساتھ یکجہتی میں ہمیشہ ثابت قدم رہے گا۔ ہم اُن سب کے ساتھ کھڑے ہوں گے جو انصاف کے متلاشی ہیں اور اُن سب کے ساتھ کام کریں گے جو امن کی جستجو میں ہیں۔ صرف فیصلہ کن اور اصولی اقدام کے ذریعے ہی ہم انسانیت پر اعتماد بحال کر سکتے ہیں اور مشرقِ وسطیٰ میں اُس دیرینہ امن کو حاصل کر سکتے ہیں جس کی طویل عرصے سے تمنا کی جا رہی ہے۔