آئی ایم ایف کرپشن رپورٹ: ذمہ داروں کیخلاف کارروائی نہ ہونے پر سینیٹ کمیٹی حکومت پر برہم

اسلام آباد:
سینیٹ خزانہ کمیٹی نے پاکستان میں کرپشن اور گورننس سے متعلق آئی ایم ایف کی رپورٹ پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے متعلقہ اداروں پر سخت سوالات کی بوچھاڑ کردی اور اظہار برہمی کرتے ہوئے پوچھا کہ کرپٹ اداروں کے خلاف کیا کارروائی ہوئی؟

سینیٹ کمیٹی برائے خزانہ کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر سلیم مانڈوی والا کی زیرِ صدارت منعقد ہوا۔ اراکین نے آئی ایم ایف کی پاکستان میں بہت بڑی کرپشن سے متعلق رپورٹ پر بحث کی، اراکین نے رپورٹ میں بتائے گئے مختلف شعبوں میں سامنے آنے والے بڑے کرپشن اسکینڈلز پر شدید برہمی کا اظہار کیا۔

اراکین کمیٹی نے ایس آئی ایف سی کی کارکردگی، معاہدوں کے فقدان اور ملکی معاشی صورتحال پر بھی سخت تنقید کی۔ سینیٹر دلاور خان نے کہا کہ آئی ایم ایف نے ملک میں 5300 ارب روپے کی کرپشن کی نشاندہی کی ہے، جن اداروں کا ذکر رپورٹ میں کیا گیا ہے کیا ان کے خلاف کوئی کارروائی کی جائے گی؟

رپورٹ وزارت خزانہ کی ویب سائٹ پر جاری کردی ہے، وزات خزانہ

وزارت خزانہ حکام نے کمیٹی کو بریفنگ میں بتایا کہ حکومت نے 2024ء میں آئی ایم ایف کو گورننس میں بہتری کیلئے مدد میں درخواست دی اور حکومت نے رپورٹ کی سفارشات کی روشنی ایکشن پلان بنانے پر رضامندی ظاہر کی، رپورٹ جون 2025ء میں ملنا تھی مگر تاخیر سے ملی وزارت خزانہ نے تمام متعلقہ محکموں سے رپورٹ پر مشاورت کی آئی ایم ایف کو کچھ تبدیلیاں کرنے کو کہا گیا وزیراعظم کی منظوری کے بعد رپورٹ کو وزارت خزانہ کی ویب سائٹ پر جاری کر دیا گیا۔

کیا حکومت رپورٹ اور 5300 ارب کی کرپشن کو تسلیم کرتی ہے؟ کمیٹی

چیئرمین کمیٹی سلیم ایچ مانڈوی والا نے سوال اٹھایا کہ کیا وزارت خزانہ اس رپورٹ پر متفق ہے جس پر وزارت خزانہ نے بتایا کہ وزارت خزانہ اس رپورٹ سے متفق ہے۔سینیٹر فاروق ایچ نائیک نے سوال اٹھایا کہ کیا وزارت خزانہ رپورٹ میں مس مینجمنٹ، خراب گورننس اور کرپشن کے الزامات کو تسلیم کرتی ہے؟ سینیٹر دلاور خان نے کہا کہ کیا وزارت خزانہ تسلیم کرتی ہے کہ 5300 ارب روپے کی کرپشن ہوتی ہے وزارت خزانہ اس پر کیا ایکشن لے گی۔

رپورٹ میں نیا کچھ نہیں ہے، وزات خزانہ

وزارت خزانہ حکام نے کہا کہ رپورٹ میں نیا کچھ نہیں ہے انہیں چیزوں پر حکومت کام کر رہی ہے۔

کرپشن رپورٹ میں سنجیدہ قسم کے الزامات لگائے گئے ہیں، فاروق نائیک

سینیٹر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ اس رپورٹ میں سنجیدہ قسم کے الزامات لگائے گئے ہیں اور کیا وزارت خزانہ انہیں تسلیم کرتی ہے اس رپورٹ میں جو کچھ لکھا گیا ہے وہ بہت سنجیدہ قسم کے الزامات ہیں اس مسائل سے سرمایہ کاری متاثر ہوتی ہے زیادہ تر الزامات تو سیاست دانوں پر لگائے جاتے ہیں مگر رپورٹ صرف افسران کی خراب گورننس کی بات کرتی ہے۔

رپورٹ میں مسائل کی تشخیص کی گئی ہے، وزارت خزانہ

وزارت خزانہ حکام نے بتایا کہ اس رپورٹ میں مسائل کی تشخیص کی گئی ہے رپورٹ کی سفارشات میں مسائل کا حل تجویز کیا گیا ہے ان سفارشات پر حکومت عمل درآمد کر رہی ہے۔

ایف بی آر افسران کی رشوت پر لڑائی ہوتی ہے، سینیٹر دلاور

سینیٹر دلاور خان نے کہا کہ ایف بی آر افسران کی رشوت پر لڑائی ہوئی اور فائرنگ ہوئی مگر کسی کے خلاف کارروائی نہیں ہوئی جبکہ سینیٹر عبدالقادر نے کہا کہ اس کیس کو دو سال ہوگئے اور اس پر کوئی کارروائی نہیں ہوئی ایک افسر نے حیدرآباد سکھر موٹروے کے اربوں روپے بینک سے نکل لیے اور کوئی کارروائی نہیں ہوئی، سی ڈی اے کا ایک افسر اربوں روپے کی کرپشن کر کے اڈیالہ جیل پہنچ گیا، اڈیالہ میں ڈیل ہوئی اور افسر اس سے بڑے عہدے پر تعینات ہوگیا، مافیاز حکومت چلا رہے ہیں۔

کرپشن میں اضافہ ہورہا ہے یہ آئی ایم ایف تھا جو رپورٹ سامنے لانی پڑی، چیئرمین کمیٹی

چیئرمین کمیٹی سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ کرپشن میں کمی کے بجائے اضافہ ہو رہا ہے جبکہ رکن کمیٹی فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ یہ تو آئی ایم ایف تھا کہ رپورٹ سامنے لانی پڑ گئی، سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ کرپشن بڑھ رہی ہے اسے ختم کرنے کیلئے کیا کیا جا رہا ہے؟

وزارت خزانہ حکام نے بتایا کہ حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ 15 سفارشات پر عملدرآمد کرنے کا اتفاق کیا ہے جس پر رکن کمیٹی سینٹر عبدالقادر نے کہا کہ ای پیڈز سے پہلے ہی بولی طے ہو جاتی ہے۔

اس ملک کا آوے کا آوہ بگڑ گیا ہے، کمیٹی

سینیٹر دلاور نے کہا کہ لاہور کے ایل ٹی او کے گزشتہ دو سال کے ریفنڈز دیکھ لیں ساری شفافیت سامنے آ جائے گی۔ سینیٹر عبدالقادر نے کہا کہ اس طرح سسٹم نہیں چل سکتا۔ سینیٹر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ اس ملک کا آوے کا آوہ بگڑ گیا ہے اس کو جڑ سے درست کرنا ہوگا۔

حکام نے بتایا کہ اس سال ایس آئی ایف سی کی کارکردگی رپورٹ جاری کی جائے گی۔ سینیٹر عبدالقادر نے کہا کہ ان کا خیال ہے کہ ایس آئی ایف سی سرمایہ کاری لائے گی۔

ایس آئی ایف سی والے کہتے ہیں ٹیکس زیادہ ہے سرمایہ کاری نہیں آسکتی، کمیٹی

سینیٹر شاہ زیب درانی نے کہا کہ ایس آئی ایف سی والے کہتے ہیں ٹیکس زیادہ ہے اس لیے سرمایہ کاری نہیں آسکتی جس پر چیئرمین کمیٹی سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ یہ اہم معاملہ ہے اس پر وزیر خزانہ محمد اورنگزیب سے بریفنگ لی جائے گی۔

انکم ٹیکس تیسرا ترمیمی بل 2025 منظور

کمیٹی کے اجلاس میں ایف بی آر حکام نے بتایا کہ سپریم کورٹ نے ٹیکس تنازعات کے حل کیلئے طریقہ کار کو بہتر بنانے کی ہدایات دیں جس پر سلیم ایچ مانڈوی والا نے کہا کہ ہم نے ایف بی آر کو کئی مرتبہ کہا ہے کہ ٹیکس تنازعات پر مقدمہ بازی کی بجائے ثالثی سے حل کیا جائے ایف بی آر نے ہماری ہدایت پر کبھی عملدرآمد نہیں کیا سپریم کورٹ کی ہدایت پر ایف بی آر کام کرنے پر آمادہ ہوا۔

ایف بی آر حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ پہلے ثالثی کا کام کمیٹی کا چیئرمین ایف بی آر اپنی صوابدید پر کرتا تھا اس پر کافی اعتراض تھا اور ثالثی کی طرف کم لوگ جاتے تھے ٹیکس دہندگان تین ریٹائرڈ ججوں کی فہرست ایف بی آر کو بھجوا دیں گے چیئرمین ایف بی آر ان میں سے کسی ایک کو چیئرمین کمیٹی منتخب کر سکیں گے اب اے ڈی آر سی 90 روز میں فیصلہ دیا کرے گی حکومتی کمپنیوں کو اے ڈی آر سی کے تحت اپیل کا حق دیا گیا ہے۔

سینیٹر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ اے ڈی آر سی کا چیئرمین ہائی کورٹ کا ریٹائرڈ جج ہونا چاہیے ہائیکورٹ کے جج کا ٹیکس اور کمرشل قانون کا تجربہ ہونا چاہیے۔

سینیٹر عبدالقادر نے کہا کہ جب ریٹائرڈ جج لکھ دیا ہے تو تمام ریٹائرڈ ججوں کو چیئرمین بنانے کا اختیار ہونا چاہیے۔ فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ایسا نہیں کیا جا سکتا کیونکہ صرف ٹیکس اور کمرشل قانون کا تجربہ رکھنے والے جج ہی ان کیسوں کو دیکھ سکتے ہیں تفصیلی غور کے بعد کمیٹی نے متفقہ طور پر انکم ٹیکس تیسرا ترمیمی بل 2025 منظور کر لیا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں