وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا محمد سہیل آفریدی نے کہا ہے کہ این ایف سی اجلاس میں خیبر پختونخوا بالخصوص ضم شدہ قبائلی اضلاع کے عوام کا مقدمہ بھرپور انداز میں پیش کیا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ 25ویں آئینی ترمیم کے بعد قبائلی اضلاع انتظامی طور پر 2018 سے خیبر پختونخوا کا باقاعدہ حصہ ہیں، تاہم بدقسمتی سے اب تک این ایف سی کے تحت ان اضلاع کو ان کا آئینی اور مالی حق نہیں دیا جا رہا جو آئین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ این ایف سی اجلاس میں شرکت کے بعد میڈیا نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ نے کہا کہ اجلاس میں تمام صوبائی نمائندگان، وفاقی وزیر اور وزیراعلیٰ سندھ کے سامنے یہ اصولی موقف رکھا گیا کہ آرٹیکل 160 کے تحت این ایف سی میں صوبے کا مکمل حصہ خیبر پختونخوا کو ملنا چاہیے، جس میں قبائلی اضلاع کا شیئر بھی شامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ قبائلی اضلاع کو این ایف سی کے حصے سے محروم رکھنا سراسر ناانصافی اور امتیازی سلوک ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ اجلاس میں تمام شرکاءاصولی طور پر اس موقف سے متفق ہوئے اور فیصلہ کیا گیا ہے کہ بدھ تک ایک ذیلی کمیٹی تشکیل دی جائے گی جو 8 جنوری تک اپنی سفارشات این ایف سی کمیٹی کے سامنے پیش کرے گی۔ اگلا این ایف سی اجلاس جنوری کے وسط میں متوقع ہے جس میں اس معاملے کو حتمی شکل دی جائے گی۔وزیراعلیٰ نے کہا کہ خیبر پختونخوا کے عوام نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بے مثال قربانیاں دی ہیں۔ صوبے کا انفراسٹرکچر، تعلیم، صحت، معیشت اور روزگار بری طرح متاثر ہوا، مگر اس کے باوجود وفاق نے صوبے کو اس کا جائز حق نہیں دیا۔ انہوں نے کہا کہ باقی صوبوں کو ان کا حق ملنا خوش آئند ہے، مگر خیبر پختونخوا کے ساتھ مسلسل ناانصافی افسوسناک ہے۔ایک سوال کے جواب میں وزیراعلیٰ نے کہا کہ 2013 سے 2021 تک پاکستان تحریک انصاف واحد جماعت تھی جس کے دور میں دو بار این ایف سی اجلاس منعقد ہوئے۔ 2022 میں ریجیم چینج کے بعد این ایف سی کا عمل تعطل کا شکار رہا اور 2022 سے 2025 تک کمیٹی غیر فعال رہی۔ اب دوبارہ کمیٹی بنی ہے اور پہلی میٹنگ ہو چکی ہے، جس سے امید کی جا رہی ہے کہ صوبے کو اس کا حق ملے گا۔انہوں نے عمران خان سے متعلق سوال پر کہا کہ قائدِ تحریک عمران خان ہمارے دلوں میں بستے ہیں، ہم دن رات ان کا نام لیتے ہیں اور لیتے رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان کو تنہائی میں رکھنا اور ملاقاتوں پر پابندی انتہائی افسوسناک عمل ہے۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ملک میں دوہرا معیار نہیں چلنا چاہیے، قانون سب کے لیے برابر ہونا چاہیے اور پالیسی مکمل طور پر آئین کے مطابق ہونی چاہیے۔
- فیس بک
- ٹویٹر
- واٹس ایپ
- ای میل




