پاکستان میں کرپشن کا ’تاثر‘ اور حقائق: ٹرانسپرنسی سروے اور آئی ایم ایف رپورٹ میں کِن خامیوں کی نشاندہی کی گئی؟

غیر سرکاری تنظیم ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل پاکستان نے حال ہی میں پاکستان کے حوالے سے ’نیشنل کرپشن پرسیپشن سروے‘ کا اجرا کیا ہے جس میں اخذ کیے گئے بہت سے نتائج میں سے ایک یہ ہے کہ پاکستان کے ’66 فیصد شہریوں نے کہا ہے کہ انھوں نے گذشتہ 12 ماہ کے دوران عوامی سہولیات کے حصول کے لیے کسی سرکاری اہلکار کو رشوت دینے پر مجبور محسوس نہیں کیا (یعنی سادہ الفاظ میں 66 فیصد افراد کو رشوت نہیں دینا پڑی)۔‘

تاہم ساتھ ہی ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل پاکستان نے اپنی رپورٹ میں یہ بھی کہا ہے کہ سروے کا حصہ بننے والے 77 فیصد افراد کا کہنا تھا کہ وہ ’کرپشن کا سدباب کرنے کی حکومتی کوششوں سے مطمئن نہیں ہیں۔‘

خیال رہے کہ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل پاکستان (ٹی آئی پی) نے سروے کے لیے ایک مخصوص تعداد میں پاکستانی شہریوں کو ریسرچ کا حصہ بنایا جس میں اُن سے عوامی سہولیات فراہم کرنے والے لگ بھگ نو اداروں میں کرپشن کے حوالے سے رائے جانی گئی ہے۔

ٹی آئی پی کے سروے کے مطابق قومی سطح پر لوگوں کی اکثریت یعنی 24 فیصد افراد یہ تاثر رکھتے ہیں کہ پاکستان میں پولیس کے محکمے میں سب سے زیادہ کرپشن پائی جاتی ہے۔ صوبائی سطح پر صوبہ پنجاب میں پولیس کے حوالے سے یہ تاثر سب سے زیادہ یعنی 34 فیصد ہے۔

پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف نے ٹی آئی پی کی اس رپورٹ پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔
شہباز شریف نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ’سروے کے مطابق عوام کی بڑی تعداد نے یہ رائے دی ہے کہ ہماری حکومت کے دوران انھیں کرپشن کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ عوام کی یہ رائے کرپشن کے خلاف جنگ اور شفافیت کے فروغ کے حوالے سے ہماری کوششوں کا اعتراف ہے۔‘

تاہم حال ہی میں انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ یعنی آئی ایم ایف نے پاکستانی حکومت کی درخواست پر گورننس اینڈ کرپشن ڈائیگناسٹکس اسیسمنٹ رپورٹ شائع کی تھی جس میں بتایا گیا کہ پاکستان کے تمام ریاستی اداروں کو کرپشن کے چیلنج کا سامنا ہے۔

آئی ایم ایف کی رپورٹ نے اس کی بنیادی وجہ ریاستی اداروں میں نظام کی کمزوریاں بتائی ہے۔ ساتھ ہی عالمی مالیاتی ادارے نے تحویز کیا ہے کہ ’پاکستان کو پالیسی سازی میں شفافیت اور احتساب کے عمل کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔‘

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں